برف اتری ہے خالی آنکھوں پر!


کبھی کبھی لگتا ہے ہم بلاوجہ زندگی کو سنوارنے کے لئے اپنی خوشیاں تیاگ دیتے ہیں، اپنے جذبوں کو دبا دیتے ہیں اور اچھی بھلی دل کو لبھاتی ہوئی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔ حاصل وہی روایتی سے سمجھوتے ہوتے ہیں وہی روٹین کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ اور خوشی۔ خالی مٹھی سے ریت کی طرح سرک چکی ہوتی ہے۔ پھر یہ بیزاری اور یبوسیت لئے ہم زندگی سے قدم ملاتے چلے جارہے ہوتے ہیں وہی روزمرہ کی بے ڈھنگی چال۔ ہماری مرہونِ منت چند لوگوں کی زندگیاں بن جاتی ہیں، چند کی سنور جاتی ہیں۔

ہمیں لگتا ہم سا مہان بھی کوئی کیا ہوگا اور جو اندر اینٹ سے بجری بنتی ہوئی ٹوٹ پھوٹ ہوتی چلی جاتی ہے نہ تو کوئی دیکھ پاتا، نہ سمجھ پاتا اور نہ ہی کسی کے پاس وہ پھاہا میسر ہوتا ہے جو زخموں پر رکھا جائے اور آرام آجائے۔ پھر کئی بار زخم مندمل ہونے لگ بھی جائیں پر اندر کا صحرا انھیں پھر سے بھر بھرا کردیتا ہے۔

ابھی اتنی سردی آئی نہیں تھی اور اسے دیکھا، فل سردی والی جیکٹ میں، دستانے، سر پہ ٹوپی، ”یا اللہ خیر! لگتا کراچی کی ہے“۔ خزاں کے لال پیلے پتوں نے سارے منظر کو حسین ترین کر دیا تھا کہ بہار میں بھی یہ رنگ کہاں نظر آتے ہیں۔

کئی دن سے اسے دیکھ رہی تھی ”اتنی بھاری جیکٹ وہ بھی ابھی سے۔ سردیوں میں تو پکا رضائی ہی ڈال کے آئے گی“ اس کے ساتھ اکثرہی ایک اور لڑکی ہوتی۔ اندر اندر میں ہنستی رہی لیکن میرے اندر کی ہمدرد انسان ایک دن جاگ ہی گئی اور اس لمحے مجھے اپنی مزاحیہ سوچوں پہ بہت تکلیف ہوئی جب اس ستائی ہوئی عورت کا مسئلہ میرے سامنے آیا۔

دیارِ غیر میں اپنا بوریا بسترا سمیٹ کے آنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی اور اپنے اپنوں کی زندگیاں آسائشوں سے بھر لیں گے مگر یہ ادراک ہی نہیں ہو پاتا کہ کیا کچھ داؤ پہ لگ گیا۔ وقت کا آبِ رواں، کھلتی ہوئی جوانی، مہکتے جذبے، رشتوں کی گرمائش۔ سب محض نوکری اور لائف سٹائل کے نرغے میں چڑھ جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وطن میں کبھی مذہب کی اتنی فکر ہو یا نہ ہو پر مغرب ممالک میں اپنی پہچان کو بچانے کے لئے سو طرح کے جہاد کرنے پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ سمندروں کے اوپر سے سفر کرنے والے دل بھی سمندر کرلیتے ہیں۔

کم سے کم سو لوگوں کے بیچ میں کھڑی وہ اتنی تنہا کیوں لگ رہی تھی۔ آج پھر اس نظر پڑی۔ موسم کی پہلی برف باری اتنی شدید خوبصورت تھی کہ آنکھیں خیرہ ہورہی تھیں پلکوں پہ ٹھنڈک اتر رہی تھی ایسے ہی اک خیال آیا کچھ لوگوں کی نظر کتنی شفا بخش ہوتی ہے۔ گال جلنے لگتے ہیں اور لالی پھیل جاتی ہے۔ تیز تیز گرتی برف پہ نظریں ٹکتی ہی نہ تھیں ”میرا وجود نہ ہونے کے برابر ہے میں اس خالی پڑی کرسی سے بھی زیادہ بے کار ہوں“ آسمان سفید تھا اور وہ کانپتے ہوئے ردی کی ہوئی کرسی کی طرف دیکھتی رہ گئی۔

امی بولتی تھیں کہ تم نے خواہ مخواہ سارا آسمان اپنے سر پہ اٹھا رکھا ہے۔ بے وجہ کی سوچیں بھی قدرت کا حسین تحفہ ہیں آپ کو منظر کی تکلیف سے غائب کردیتی ہیں اور تکلیف کی میکانکی خاصیت یہ ہے کہ وہ اندر جذب ہوجاتی ہے۔ برف کی معصومیت یہ ہے کہ حسین بہت ہوتی ہے اینوئیں چھونے کو دل کرتا ہے بار بار۔ چاہے ٹھنڈک سے ہاتھ جلنے لگیں۔ ہر سال ہی یہی ہوتا کہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے گاڑی سلپ ہوتی، کبھی ڈولتی، گاڑی سنبھل جاتی، میں ڈولتی رہ جاتی۔ اور اک نئے ڈرائیور کو ڈھیر ساری ہدایات ریکارڈ کرارہی تھی کہ اس کا فون ہی آگیا۔

”میں بہت کوشش کرتی ہوں کہ ٹھیک ہوجاؤں پر کوئی جان کے تو مریض نہیں بنتا“ آج اس سے ڈھیروں باتیں کیں اس کو کپڑے پریس کر کے دیے۔ وہ کراچی کی تھی لمبے، کالے سے بال۔ سانولا رنگ جو پیلا پڑگیا تھا خون کی کمی سے۔ ”مجھے نماز میں دیر ہورہی ہے۔ پیچھے ہٹو“ اس کے کالے بالوں کی سیاہی اس کے چہرے پر پھیل گئی۔ اور مجھے سٹی کارپوریشن پہ غصہ آرہا تھا سڑکوں پر سے برف صاف نہیں کرتے کالی برف انتہائی بدصورت لگ رہی تھی۔ اور جن کے دل کالے ہوں۔

شاید وہ عورت جھوٹی تھی مکر کر رہی تھی اتنا شریف بندہ۔ سب لوگ اسے جانتے ہیں اتنا نیک۔ کوئی نماز مس نہیں کرتا۔ بر وقت زکوتہ ادا کرتا ہے۔ صدقہ خیرات میں سب سے آگے۔

عورتیں بھی حد کرتی ہیں کہ اچھے خاصے شریف مردوں کو محض اپنی جذباتیت کی بنا پر آزماتی ہیں۔ اتنا قابلِ عزت، نیک سیرت بندہ بھلا بیوی کا خیال نہیں رکھتا ہوگا۔

فون بند کر کے بوجھل قدموں سے کوفی پھینٹنے لگی۔ ہیڈفون لگایا ”دل سے سن پیا یہ دل کی داستاں۔ جو لفظوں میں نہیں ہو بیاں“ پچھلے دنوں ڈھیروں کلاسیکی غزلیں سنیں تو ابو کو لگا کہ میرا ذوق اچھا ہوگیا ہے۔ آج بھی مجھے فیس بک پہ یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ میرا ذوق اچھا ہے ورنہ ادب کے بے ادب لوگ مجھے نا ادب ہی سمجھتے رہیں گے۔ اندر کو باہر لانا انتہائی اذیت ناک عمل تھا۔ مگر کچھ آنکھیں اتنی واضح تبلیغ کرتی ہیں کہ ایمان لاکے ہی بنتی ہے۔

انسان ڈولتا ضرور ہے مگر اندر کا سچ وہ بھاری پتھر ہے جو سینے پہ دھرا، ہلنے نہیں دیتا۔ اس کی ڈور بیل پہ ہاتھ رکھ کے میں کسی رنگ میں اتر گئی مگر جلد ہی رنگ کی بھنگ بن گئی۔ اتنی اکڑ، اتنا بیزار مزاج، پیچھے سے وہ ستا ہوا چہرہ نمودار ہوا۔ اب وہ دروازے سے پیچھے ہٹتا تو میں اندر جاتی۔ ”آپ کو کون روک سکتا ہے“ ایک قدیم آواز کی ساعت کہیں بہت دور سے گونجی۔ دل مٹھی میں آگیا۔ تم سے لاکھ اختلاف سہی پر دنیا کی منافقت سے جب بھی دل ڈوبا تو تمھاری سچائی کے تنکے نے ہر بار ہاتھ تھام لیا پر یہ میں تھی نا۔ مجھے تو تم بھی کچھ کچھ دنیا جیسے ہی لگے۔ پر خیر یہ تو تم تھے۔

اس کی آنکھوں کا خالی پن، وحشت اور پیلی ہوتی رنگت دل چیرتی تھی۔ اس کو دیکھ کے لگتا تھا ہری سرسوں جل کے زرد ہوگئی۔ یا پھر جھیل کا پانی خشک ہوگیا ہو۔ ”لوکیمیا بتایا ڈاکٹر نے“ وہ کانپ رہی تھی۔ وہ سامنے بیٹھا انڈیا پاکستان کا میچ دیکھ رہا تھا۔ کوئی زندگی کی جنگ لڑرہا تھا۔

دل چاہ رہا تھا کہ برف پڑے۔ صبح سے نظریں لان میں کھلنے والی کھڑکی پر جمی ہوئی تھیں۔ ”خبردار اپنے شوہر کی نافرمانی مت کرنا۔ اس کے مال کی حفاظت کرنا۔ اپنے گھروں کو ان کے لئے آرام اور سکون کی جگہ بنانا۔ جو عورتیں خاوندوں کی ناشکری کرتی ہیں وہ جتنی بھی نیک ہوجائیں جنت میں داخل نہیں ہوسکتیں“ ایک عالمہ خاتون کا لیکچر چل رہا تھا۔ عورتیں استغفار پڑھ رہی تھیں کانوں کو ہاتھ لگ رہے تھے۔ سب کے چہرے کتنے نورانی تھے۔ ”نجات کا راستہ۔ صبر۔ کب تک رہے گا“

لگتا تھا گیٹ کے اندر کی طرف لگی ہرے پتوں والی گھنی بیل کو کسی کی نظر لگ گئی۔ بھورے کمہلائے ہوئے، پانی کو ترستے ہوئے پتے۔ اس کی نظریں دروازے کی سمت نچھی رہتی تھیں۔ اتنی خالی نظریں کس کو کھینچ کے گھر لا سکتی ہیں۔ وہ باوضو کھڑا اسے ہدایتیں دے رہا تھا۔ جو بالوں کو آگے پیچھے کر کے اس کا دل لبھانے کی کوشش کررہی تھی۔ ”پتہ بھی ہے وضو خراب ہوتا ہے“ آج تو سفید کرتے پر کالی واسکٹ بھی تھی۔ جلتی سلگتی بیل کے سامنے کھڑا وہ کتنا تازہ دم لگ رہا تھا۔

”میں یہاں سے چلی جانا چاہتی ہوں۔ میں اس شخص کے ساتھ ایسی خالی زندگی گزارتی رہی تو مر جاؤں گی“ اس کے کالے گھنے بال بیلوں کی طرح کاؤچ سے نیچے گر رہے تھے۔ پیلی سرسوں پہ بادل امڈ رہے تھے دل میں آگ کے بھبھوکے۔ ”مائیکروبیالوجی میں ماسٹرز ڈگری لینے والی سہانہ احمد گولڈ میڈلسٹ، ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کراچی یونیورسٹی، بارہ سال تک لیکچرار رہی، اور پھر میاں اور بچوں کے ساتھ کینیڈا آگئی“۔

ڈپریشن تو امیروں کی بیماری ہے پر مجھے لگتا اس بیماری کوبھی حقوق ِ نسواں سے خاصا لگاؤ ہے یہ بھی ہر بار عورتوں کا ساتھ دیتی ہے۔ میں بچپن سے حقوقِ نسواں پہ لکھتی آرہی ہوں پر آج تک سمجھ کچھ بھی نہیں آئی۔

آج وہ بہت بے چین لگ رہی تھی شاید خون کی کمی بہت زیادہ ہوگئی یا خون جل گیا۔ خواہشوں کے ریڈ سیل جب جسم میں تحلیل نہیں ہو پاتے تو مایوسی کا دھواں سب راکھ کرنے لگتا ہے پر لوگ نہیں سمجھتے۔ لوگ صرف وہی جانتے ہیں جو انھیں دکھایا جاتا ہے مگر سچے انسان دکھاوے سے منکر ہوجاتے ہیں۔ ٹوٹ جاتے ہیں، ریزہ ریزہ بکھر جاتے ہیں مگر مان کے رشتے پر قائم رہتے ہیں۔

”یہ طلاق شدہ ہے مولوی صاحب کو ان کے لئے سہارے کی ضرورت تھی“ بیزار صفت با وضو وجود نظریں ملائے بغیر بول رہا تھا۔ سفید کپڑوں پر سے لال رنگ کے پھول جھڑ رہے تھے۔ کالے سیاہ بالوں میں چاندی اتر رہی تھی۔ میں دروازے پہ کھڑی لرزگئی۔ دیوار سے چمٹی موسموں کے ستم سے اور آبیاری کی ترسی ہوئی بیل کی جڑیں اس کی آنکھوں میں پیوست ہوگئیں۔ گیٹ کے اندر کی طرف انگوروں کی ایک اور سرسبز بیل اگنے لگی تھی جس کے ہرے ہرے پتے۔ جھڑنے سے پہلے ہی گرنا بھی شروع ہوگئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).