عدم برداشت کا رویہ ہمیں برباد کر دے گا


یہ کون لوگ ہیں۔ یہ کس حیثیت میں بات کر رہے ہیں۔ یہ چور ہیں۔ یہ ڈاکو ہیں۔ ان لوگوں نے قوم کا پیسہ لوٹا ہے۔ ان کو الٹا لٹکا دیا جائے۔ یہ خورشید شاہ نے اور مشاہداللہ نے پی آئی اے کو برباد کر دیا۔ یہ سٹیل مل کو بیچ کر کھا گئے۔ یہ گفتگو جناب وفاقی وزیر اطلاعات نے فرمائی۔ قومی اسمبلی میں جناب اسد قیصر نے انہیں سمجھایا کہ ایسی گفتگو نہ کریں۔ چیئرمین سینٹ نے بھی انہیں سمجھانے کی کوشش کی بلکہ سینٹ میں فواد چودہری کے داخلے پر پابندی لگا دی۔

جواب میں فواد نے پریس کانفرنس میں عوام کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چیئرمین سینٹ کون سا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں۔ اس نے اپنا رویہ نہ بدلا تو حکومت کو سوچنا پڑے گا۔ جواب میں مشاہدللہ نے کہا فواد وغیرہ گز گز بھر کی زبانیں رکھتے ہیں اور بدزبان بھی ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے معزز اراکین گفتگو میں اتنے بدزبان ہیں تو عمل میں کتنے بداعمال ہوں گے۔ ان کے کردار کیا ہوں گے۔ کیا ان کو علم نہیں کہ قوم ان کو دیکھ رہی ہے۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ ان کے انداز و اطوار قوم بھی اپنائے گی۔

گزشتہ ایام سپریم کورٹ آف پاکستان نے آسیہ مسیح کیس میں فیصلہ سنایا تو علما نے ججوں کے قتل کا فتویٰ صادر کردیا۔ کئی دن تک لوگوں کو گھروں میں محصور کر کے رکھ دیا۔ حکومت مفلوج ہو کہ رہ گئی۔ اب عید میلادالنی کے موقع پر ایسی پوسٹیں لگائی جا رہی ہیں کہ عید میلاد النبی صلعم نہ منانے والے شیطان کے پیروکار ہیں۔ عید میلادالنبی کی خوشی کس مسلمان کو نہیں ہے۔ لیکن اصرار یہ ہے ان علما کے مروجہ طریقے پر منائی جائے ورنہ وہ نہ ماننے والوں کو اسلام سے خارج کر دیں گے۔

علما کو علم نہیں کہ ان کے رویے قوم پر کیسے کیسے اثرات چھوڑ رہے ہیں۔ کیا سعودی عرب اور متحدہ عرب عمارات میں مسلمان نہیں رہتے۔ کیا یورپ کے مسلمان اپنی عبادات نہیں کر پارہے۔ ہم بحیثیت قوم کہاں کھڑے ہیں۔ کیا ہم ان مذہبی رہنماؤں کے ہاتھ یرغمال بنے رہیں گے۔ یہ تو اپنے سوا کسی اور کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ کیا مذہب کے نام پر سڑکیں بلاک کرنا جائز ہے۔ اور حکومت ان کو اجازت دے چکی کہ مذہب کے نام پر جس کو چاہیں زندہ رہنے دیں جس کو چاہیں موت کی نیند سلا دیں۔

ہزارہ کے مسلمانوں کا کیا قصور تھا۔ کیا صرف اس لئے ان کو مارا گیا کہ وہ شیعہ تھے۔ کیا حکومت مسلمان ہونے کی ایک تعریف ریاستی طور پر نہیں کرسکتی اور پھر اس پر سختی سے عمل پیرا نہیں ہوسکتی۔ مجھے ان سارے معاملات میں حکومت کہیں نظر نہیں آرہی۔ جسے حکومت کہا جا رہا ہے وہ پی ٹی آئی کے خول میں بند ہے حالانکہ وہ اب بائیس کرڑ عوام کی حکومت ہے اور اسے بائیس کرڑ عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔

گزشتہ دنوں فیصل آباد کے وکلا نے عدالتوں میں توڑ پھوڑ کرکے قوم کو کیا پیغام دیا ہے۔ گزشتہ سال ملتان کے وکلا نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ مطالبات کی آڑ میں قانون کے رکھوالے قانون کا مذاق اڑاتے نظر آئے۔ کیا قوم ان کو اس عمل پر تعریفی اسناد سے سرفراز کرے گی۔ یہ ہمارے معاشرے کی رہنمائی کرنے والے لوگ ہیں۔ کیا ان کے روئیے پسندیدہ ہیں۔ کیا ان واقعات پر سپریم کورٹ نے کوئی ایکشن لیا۔ چیف صاحب ہسپتالوں سے تو شراب برآمد کرتے پھرتے ہیں اور عدالتوں کی توڑ پھوڑ کرنے والے وکلا ان کو نظر نہیں ارہے۔ اور ان وکلا کو احتجاج کیوں کرنا پڑا۔ ؟ ان کا مطالبہ غلط تو نہیں۔ وکلا عوام کی سہولت کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ بنچ بنانے میں کیا مانع ہے۔

گزشتہ سال ینگ ڈاکٹرز اپنے مطالبات کے لئے سڑکوں پر آگئے۔ ہسپتال میں ایمرجنسی میں مریض موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھے لیکن وہ اپنے مطالبات منوانے مال روڈ پر پڑے تھے۔ کیا میڈیکل کی تعلیم اس بات کی اجازت دیتی ہے۔ اور کیا حکومت ان مسیحاوں کی مالی مشکلات سے آگاہ نہیں۔ کیا ان کے مقدس پیشے کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے مطالبات پر غور و خوض نہیں ہو سکتا۔ کیا یہ قوم کے لئے خوشی کی بات ہے کہ ان کے مسیحا سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آئیں۔

سول سوسائٹی درخت کاٹنے پر حکومت کو اورنج لائین بنانے سے روکنے پر مجبور کرسکتی ہے تو ان مسیحاوں اور مریضوں کی مدد کیوں نہیں کرتی۔ اور کیا حکومت ان مٹھی بھر مسیحاوں کی داد رسی نہیں کر سکتی۔ یہ مسیحا چھتیس چھتیس گھنٹے ڈیوٹی کرتے ہیں اور اگر آپ گہرائی میں جا کر دیکھیں تو آپ کو علم ہوگا ان میں سے آدھے تو بغیر تنخواہ کے ٹریننگ کے نام پر ڈیوٹی کرتے پھرتے ہیں۔

صحافی کسی بھی معاشرے کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں موبائل کی تجارت کے بعد سب سے زیادہ تجارت صحافت میں ہوئی ہے۔ اتنے نیوز چینل معرض وجود میں آئے ہیں کہ صحافت کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔ ریٹنگ بڑھانے اور اشتہارات لینے کی دوڑ نے ٹی وی چینلز کو صحافت کے دائیرے سے باہر کہیں دور لا کھڑا کیا ہے۔ ٹاک شوز میں کی جانے والی گفتگو اور باہم دست و گریبان ہوتے ہوئے مہمان قوم کو کیا سبق پڑھا رہے ہیں۔

پچھلے دنوں یونیورسٹی کے معزز اساتذہ کو جس طرح ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا، سر شرم سے جھک گیا۔ کیا وہ چلنے پھرنے سے معذور اساتذہ پولیس کسٹڈی توڑ کر مفرور ہو جاتے۔ کیا یہی ہماری تہذیب ہے۔ کیا ادارے اس لئے بنائے گئے ہیں کہ شرفا کی تذلیل کی جائے۔ ہم اپنے معاشرے کو کیا سبق پڑھا رہے ہیں۔ معاشرہ کہاں سویا پڑا ہے۔

دو دن ہوئے ساٹھ روپے کے تنازعے پر ایک انسان کا قتل ہوا۔ کچھ روز پہلے ایک بیٹے نے باپ کو قتل کردیا۔ ایک بہن نے دوسری بہن کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا۔ یہ سب اس عدم برداشت کا نتیجہ ہے جو ہمارے علما ہمیں اپنے عمل سے سکھا رہے ہیں۔ یہ اسی عدم برداشت کا نتیجہ ہے جو ہمارے وزرا ہمارے پارلیمنٹیرین ہمارے قانون بنانے والے اپنے قول و فعل کی بنیاد پر معاشرے کو منتقل کر رہے ہیں۔ معاشرے کی یہ ایلیٹ کلاس وزرا، پارلیمنٹیرین، جج، وکلا، ڈاکٹر اور صحافی عدم برداشت کا شکار ہیں۔

ان کے لہجے، قول و فعل کا تضاد اور ان کی عادات و اطوار قوم کو منتقل ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ہمارے رہبر، ہمارے رہنما ہمارے وکلا، جج اور مسیحا جھوٹ بولیں گے، ایک دوسرے کو گالم گلوچ کریں گے تو عام آدمی ان سے دو قدم آگے ہی جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دوسروں کو برداشت کرنا سیکھیں ورنہ عدم برداشت قوم کو تباہ کر ڈالے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).