ادب۔ ایک تخلیقی یا سماجی سرگرمی؟


\"ghaffer\"ادب کا مسئلہ اظہارِ ذات کے ساتھ جڑا ہوا ہے، یہ بات اپنی جگہ درست ہے مگریہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا ادب کا کام زندگی اور معاشرت میں تبدیلی لانا ہے؟ یا یہ محض انفرادی سطح پر اظہار ذات تک ہی محدود ہے؟ ایسے مباحث مختلف زمانوں میں ہوتے رہے ہیں مگر یہ بات طے ہے کہ وہی ادب مقبولیت اور قبولیت سے ہمکنار ہوتا ہے کہ جس میں اجتماعی شعور اور عوامی مزاج کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ بات تب تک قابل اعتبار تھی جب تک میڈیا نے اپنا کردار طے نہیں کیا تھا۔ جب سے میڈیا نے اپنے ہاتھ پاﺅں پھیلائے ہیں، یوں لگتا ہے کہ میڈیا جسے چاہے گا وہی مقبول ہو گا اور جسے میڈیا نظر انداز کردے گا، خلقت اسے نظر انداز کر دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ فیض، احمد فراز اور منیر نیازی جیسے تکڑے شاعروں کی عوامی مقبولیت کو یہ کہہ کر رد کیا جاتا رہا کہ انہیں گلوکاروں نے زیادہ مشہور کیا ہے۔ خیر یہ موضوع اپنی جگہ، اس کے حق میں اور اس کے خلاف بھی دلیلیں دی جا سکتی ہیں مگر ایک بات پر تو سب متفق ہیں کہ کلام کے گائے جانے کے بعدشاعر کی مقبولیت اور عوامی سطح پر قبولیت پر اثر ضرور پڑتا ہے۔

مگر اکیسویں صدی میں ایک نیا سوال آن کھڑا ہوا ہے کہ کیا ادب ایک تخلیقی سرگرمی ہے یا یہ محض ایک سماجی سرگرمی تک محدود ہے؟ جواب کی تلاش میں جب ہم نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی تو ہمیں احساس ہوا کہ ادب ایک تخلیقی سرگرمی کے بجائے ایک سماجی سرگرمی بن چکا ہے اور اس کی سرپرستی کرنے والے وہی لوگ ہیں جو سماجی سرگرموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تو ہوتا چلا آیا ہے کہ اساتذہ اپنے شاگردوں کو اصلاح کے بہانے اپنے کئی اشعار سے نوازتے رہے ہیں، اور چند مثالیں ایسی بھی ہیں کہ شاعر بننے کے شوقین سفید کاغذ پر بھی اصلاح لیتے رہے ہیں۔ مگر ایک بات یہ طے تھی کہ ایسے شاگردوں میں کسی حد تک شاعری کا ذوق اور شوق ضرور پایا جاتا تھا اور وہ واقعی شاعر بننا چاہتے تھے۔ مگر جب سے شاعری اور مشاعرے ایک سماجی سرگرمی کی ذیل میں آئے ہیں، اہل ثروت شاعر بننے کا شوق پورا کرنے کے لیے شاعری کو اشیائے صرف کی ذیل میں ڈال کر اس کی قیمت اپنی قوت خرید کے مطابق چکانے کے لیے تیار ہیں۔ اس بات کی حوصلہ افزائی پہلے تو اساتذہ اس لیے کرتے تھے کہ انہیں مشاعرے میں جانے کے لیے اپنے ساتھ شاگردوں کی ایک فوج چاہیے ہوتی تھی مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔ اب وہ لوگ جو شاعر بننا چاہتے ہیں انہیں ہی صرف کلام نہیں چاہیے، شعرا کو بھی پیسے چاہئیں اور شاعری چوں کہ ان کی ایک پراڈکٹ ہے، اس لیے وہ اپنی پراڈکٹ کی قیمت خریدار اور اپنی ضرورت کو ،مدنظر رکھتے ہوئے لگاتے ہیں۔ کنزیومرازم کے اس دور میں اس میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتے۔ اب اگر ایک ماڈل یا اداکار اپنے چہرے یا اداکاری کے ٹیلنٹ کی قیمت وصول کرنے کو اپنا پروفیشن سمجھتا ہے تو شاعروں کو بھی یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ وہ اپنی شعر کہنے کی اہلیت کی قیمت وصول کرنے میں شرمندگی محسوس کریں۔ اس وقت یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے جتنے تھیسز ہو رہے ہیں، ان میں سے ایک خاصا تناسب ایسے مقالہ جات کا ہے جو ایسے لوگ لکھتے ہیں جن میں یہ اہلیت موجود ہوتی ہے۔ ان کو پیسے اور طالب علم کو ڈگری مل جاتی ہے۔ یہی رویہ ایسی اصناف میں بھی در آیا ہے، جہاں تخلیقی صلاحیتیں چاہیے ہوتی ہیں۔ پینٹنگز میں تو کئی زمانوں سے یہ ہو رہا ہے کہ جس کا نام بکتا ہے وہ دوسرے مصوروں سے پینٹنگز بنوا کر اپنے نام کا ٹیگ لگا کر بیچنے لگتا ہے۔ اسی طرح جوتے ہوں، کپڑے ہوں یا اور سامانِ ضرورت کی اشیا، جو برانڈ نیم بک رہا ہوتا ہے، کمپنی مارکیٹ کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے دوسری جگہوں سے ایسی پراڈکٹس بنوا لیتی ہیں اور اپنے نام سے مارکیٹ میں فروخت کرتی ہے۔ ادب میں بھی ایسے رویے ہی در آئے ہیں۔

 ادب تخلیقی سرگرمی کے بجائے ایک سماجی سرگرمی بنا کر سرپرستی کے لیے صاحبانِ ثروت کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ اس کا آغاز تو لاہور میں دو دہائیاں قبل اس وقت ہو گیا تھا کہ جب حلقہ ارباب ذوق کا سیکرٹری بننے کے لیے ادیبوں اور شاعروں کو گھروں سے اپنی گاڑیوں میں بٹھا کر ووٹ ڈالنے کے لیے لایا جانے لگا۔ حلقہ کے ہفتہ وار اجلاس میں چائے کے دو سیٹ منگوانے کے بجائے تمام حاضرین کی تواضع چائے اور بسکٹس کے ساتھ ہونے لگی۔ اس کے لیے پیسے درکار تھے اور جن کے پاس پیسے تھے، وہی حلقہ کے سیکرٹری بننے کے اہل قرار پائے۔ جو سیکرٹری یا حلقہ کے عہدیدار نہیں بن سکتے تھے انہوں نے اپنی ادبی تنظیمیں بنا کر اپنے گھروں میں حلقہ کی طرز پر ادبی اجلاس کروانے شروع کر دیے جہاں ہمارے سینئر ادیب حلقہ کے اجلاس کی نسبت زیادہ حاضری دینے لگے کہ وہاں تواضع کے لوازمات زیادہ ہوتے تھے۔ جو گھروں میں تقریبات نہیں کروا سکتے تھے انہوں نے ہوٹلوں کا رخ کیا۔ اُن دنوں نیشنل ہوٹل، شیزان ہوٹل پر ادبی تقریبات ہونے لگیں۔ اس سے اگلا مرحلہ وہ تھا کہ جب بھی کوئی باہر سے چھوٹا موٹا ادیب شاعر آتا، اس کے اعزاز میں تقریب کے بجائے ہوٹلوں میں کھانے کی دعوتیں ملنے لگیں، پھر تو اس میں دوڑ ہی لگ گئی۔ سینئر ادیب شاعر جس ہفتے دو تین ہوٹلوں میں دعوتیں نہ اڑاتے انہیں اپنے سینئر ہونے پر شک ہونے لگتا۔ جو لوگ ادیب شاعر بننے کے شوقین تھے اور اُن کے پاس مال ودولت کی فراوانی تھی، انہوں نے یک دم سینئر ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ راہ و رسم پیدا کر لیے، گھریلو تقریبات میں بھی آنا جانا شروع ہو گیا۔ یہ وہ بائی پاس تھا جس کا سب سے زیادہ نقصان اُن لکھنے والوں کو ہوا جو ادبی مسافت کی درمیانی منزلوں پر تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہوٹلوں کی ان دعوتوں میں شعرو سخن پر کوئی بات نہیں ہوتی، صرف کھانا کھایا جاتا ہے ،کبھی آواری ہوٹل میں، کبھی ہالی ڈے ان میں، کبھی ایمبیسڈر میں، کبھی جمخانہ اور کبھی ویہڑہ ریسٹوران میں، کبھی شیزان اور کبھی میٹرو پولیٹن کلب میں، کبھی چائینیز ریسٹورینٹس میں۔ شاعر ادیب پاک ٹی ہاﺅس میں حلقہ ارباب ذوق کی نشست میں آنے کے بجائے ان ہوٹلوں میں جانے کے عادی ہو گئے ہیں گویا تخلیقی عمل ایک سماجی عمل میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اس کو تبدیل کرنے والوں میں ہمارے سینئر ادیب شاعر پیش پیش ہیں جن کی دیکھا دیکھی جونئیرز بھی اس ڈگر پر چل نکلے ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والے لونڈوں کو اسٹیج پر بٹھا کر مہمانِ خصوصی یا صدر بنا دیا جاتا ہے اور ان کے یوم پیدائش سے بھی قبل کے سینئر شعرا کو ان سے پہلے پڑھا دیا جاتا ہے۔ اب تو لاہوری ناشتہ کے نام پرایک مقامی یونیورسٹی میں ہر مہینے ایک سینئر ادیب، شاعر کو بلا کرکچھ لوگ اس کے کاندھوں پر کھڑا ہو کر اپنا قد بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں مگر ہمارے سینئر ادیب شاعر اس کا احساس ہی نہیں کرتے کہ انہیں استعمال کیا جا رہا ہے۔ مشاعروں میں حفظِ مراتب پرچی سسٹم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ شاعر کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ چار پانچ اشعار کی ایک غزل سے زیادہ نہ سنائے۔ ادبی تقریبات میں کتابوں پر مضامین پڑھوانے کے بجائے شخصیت پر عمومی، غیر متعلق اور سطحی گفتگو کو ترجیح دی جاتی ہے۔ گویا ادب مکمل طور پر ایک تخلیقی سرگرمی کے بجائے سماجی سرگرمی بن چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments