ایک ایسا سمندر جس کا کوئی ساحل ہی نہیں: کرۂ ارض کے بارے میں چار دلچسپ حقائق


گلوب

اس کرۂ ارض کے بارے میں کئی باتیں ہمارے ذہنوں میں اس طرح رچ بس گئی ہیں کہ ہم ان کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرتے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو ہم جانتے ہیں وہی سچ ہے۔ لیکن ہر معاملے میں ایسا ضروری تو نہیں۔

دنیا سے متعلق حقائق کے بارے میں لکھنے والے سائنسداں میٹ براؤن نے اپنی کتاب ‘ایوری تھنگ یو نیو اباؤٹ پلینٹ ارتھ از رانگ’ یعنی ‘کرۂ ارض کے بارے میں آپ جو جانتے ہیں وہ غلط ہے’ میں چند ایسی چیزوں کا ذکر کیا ہے جو آپ کی معلومات کو چیلنج کرتے ہیں۔

انھوں نے دنیا کے بارے میں بی بی سی کے ساتھ گفتگو کے دوران چار دلچسپ چیزوں کا ذکر کیا۔

بئر طویل

1۔ 2060 مربع کلو میٹر کا نومینز لینڈ

مختلف ممالک کے درمیان زمین، ساحل سمندر، اختیار، اقتدار اور تجارت کے قضیے اور اجارہ داری کے سبب کرۂ ارض پر کئی جگہ نومینز لینڈ کے نام سے جانی جاتی ہے اور جس کے وجود کے بارے میں آپ نے سن رکھا ہوگا۔

بین الاقوامی قوانین کے مطابق یہ دو یا اس سے زیادہ ممالک کی سرحدوں کے درمیان کا خالی علاقہ ہوتا ہے جس پر کسی بھی ملک کا قانونی اختیار نہیں ہوتا ہے۔ تاہم اس پر قانونی دعوی کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا ریت کے اربوں کھربوں ذرے بھی کم پڑ سکتے ہیں!

خلائی مخلوق کی تلاش: دس دلچسپ حقائق

لیکن افریقہ میں ایک جگہ ایسی ہے جس پر کوئی بھی ملک اپنا حق نہیں جتاتا۔ یہ علاقہ ‘بیر طویل’ یا ‘بئر طویل’ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کا رقبہ 2،060 مربع کلومیٹر ہے اور یہ مصر اور سوڈان کی سرحدوں کے درمیان واقع ہے۔

جیرمی

امریکی شہری جیرمی ہٹن نے بتایا کہ انھوں نے اس کے بارے میں دونوں ممالک کو درخواست دی ہے لیکن کسی نے انھیں جواب نہیں دیا

یہ خطہ 20 ویں صدی کے آغاز میں اس وقت وجود میں آیا جب مصر اور سوڈان نے اپنی اپنی سرحدیں کچھ اس طرح کھینچيں کہ یہ علاقہ کسی کے دائرے میں نہیں آیا۔

بیر طویل خشک آب و ہوا والا علاقہ ہے اور یہاں کی زمین بنجر ہے لہذا کوئی اسے اپنانا نہیں چاہتا۔

لیکن اس علاقے نے بہت سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔

سنہ 2014 میں امریکی ورجینیا کے ایک کسان نے یہاں ایک پرچم لگا کر خود کو ‘شمالی سوڈان کی ریاست’ کا گورنر قرار دیا۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی شہزادی بنے۔

2۔ دنیا کے گِرد چکر لگانے والا پہلا شخص؟

کیا پرتگالی مہم جو فرڈینینڈ میگلن دنیا کا چکر لگانے والے پہلے شخص تھے اور کیا انھوں نے دنیا کے سب سے بڑے سمندر کو اپنا نام دیا تھا؟

یہ درست نہیں ہے۔ تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سنہ 1480 میں پیدا ہونے والے فرڈینیڈ میگلن پہلے یورپی تھے جنھوں نے بحرالکاہل کو عبور کیا تھا۔

سنہ 1519 میں میگلن ایک بڑے گروپ کے ساتھ سمندر کے راستے سپائس آئی لینڈ یعنی مصالحے والے جزیرے کی تلاش میں نکلے تھے۔ کئی ممالک ہوتے ہوئے تین سال بعد یہ گروپ اسی جگہ پہنچا جہاں سے وہ روانہ ہوا تھا۔

فلم

وائجز آف ڈسکوری میں فرڈینینڈ میگلن کا کردار ایڈوارڈو جیورو نے نبھایا ہے

بہرحال سپین سے ابتدا کرنے والے سفر کا جشن منانے کے لیے کم ہی لوگ زندہ بچے تھے۔ اس گروپ نے 270 لوگوں کے ساتھ سفر شروع کیا تھا لیکن سفر کے اختتام پر صرف 18 افراد زندہ بچے تھے۔ میگلن کی بھی دوران سفر موت ہو گئی تھی۔

اس سفر کے دوران سنہ 1521 میں میگلن فلپائن کے مشرقی ساحل پر پہنچے۔ وہاں کے مقامی باشندے انھیں سیبو جزائر لے گئے۔

میگلن اور ان کے عملے کے افراد مقامی باشندوں کے دوست بن گئے۔ یہاں تک کہ وہ ان کے پڑوسی جزیرے میں آباد ان کے دشمنوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار بھی ہوگئے۔

حملے میں میگلن کو ایک زہر آلود تیر لگا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔ بہر حال باقی لوگوں نے سپائس آئی لینڈ کی تلاش کی اور پھر ایک چھوٹے راستے سے سپین لوٹ آئے۔

یہ بھی پڑھیے

‘مسیحا پودوں’ کی تلاش

’ڈائنوسارز کے فروغ میں آتش فشانی کا اہم کردار رہا‘

میگلن بحرالکاہل کے راستے سفر کرنے والے پہلے یورپی نہیں تھے۔

ان کے برسوں بعد ہسپانوی مہم جو واسکو نونیز ڈی بالبوا پناما ہوتے ہوئے بحرالکاہل کے ساحل پر پہنچے اور انھوں نے ہوا میں اپنی تلوار لہراتے ہوئے اس کی دریافت کا دعوی کیا۔

ساحل سمندر

3۔ کیا سمندر کے کنارے زمین ہوتی ہے؟

ہمارا یہ خیال ہے کہ سمندر کے سرے کا پتہ ہو یا نہ ہو لیکن اس کا کنارا ضرور ہوتا ہے۔ کئی سمندر تو چاروں جانب زمین سے گھرے ہیں جیسے کہ بحیرۂ روم اور بحیرۂ اسود۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کب ایک سمندر براعظم سے مل جاتا ہے پتہ نہیں چلتا لیکن ایسے میں جزائر کے سلسلوں سے اس کی حد کا تعین کیا جاتا ہے۔

بہر حال ایک ایسا بھی سمندر ہے جس کا کوئی بھی کنارا زمین سے نہیں ملتا۔ اور یہ سارگوسا سی یا بحیرۂ سرقوسہ ہے۔

یہ سمندر بحر اوقیانوس کے مغرب میں واقع ہے اور قطب شمالی سے ایک جانب کو مڑتی ہوئی لہریں ہی اس کے حدود کا تعین کرتی ہیں۔

بحرالکاہل کی چکر کھاتی لہروں کے سبب ہی بحر سرقوسہ کا پانی پرسکون رہتا ہے اور ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوتا۔

4. زلزلے کی شدت کو رِیکٹر سکیل پر ماپا جاتا ہے؟

سکولوں میں ہمیں یہی پڑھایا گیا ہے کہ زلزلے کی شدت کو رِیکٹر سکیل پر ناپا جاتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ درست معلومات نہیں۔

سنہ 1930 میں ماہر ارضیات چارلس رِکٹر اور بیونو گوٹینبرگ نے صرف کیلیفورنیا میں زلزلے کی وجہ سے پیدا ہونے والی توانائی کو ناپنے کے لیے اسے بنایا تھا۔ یہ ایک قسم کا سیزموگراف تھا۔

اسی کی بنیاد پر سنہ 1970 میں ایک نئے نظام کی بنا ڈالی گئی اور اسے ماہر ارضیات ایک پیمانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اسے سیزمولوجیکل سکیل کہتے ہیں۔

اس کا استعمال بڑے پیمانے پر ہوتا ہے لیکن نام کی طوالت کی وجہ سے اسے عام پر طور پر رِیکٹر سکیل ہی لکھا اور بولا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp