قومی اور سیاسی راہنماؤں کے اقوال زریں


قومی سیاسی راہنماؤں کے اقوال زریں:

* ”وعدے قرآن وحدیث تھوڑی ہوتے ہیں“ آصف علی زرداری

* ”کون سا وعدہ؟ رات گئی بات گئی“ چودھری شجاعت حسین

* ”کونسے وعدے؟ شادی اور الیکشن سے پہلے ہونے والے وعدے ایک جیسے ہوتے ہیں“

*وردی اتارنے کا وعدہ تو محض حکمت عملی تھی، وہی تاویل قابل قبول ہوگی جو میں کرونگا۔ پرویز مشرف

* الیکشن بائیکاٹ کیوں؟ پرویز مشرف کے زیرنگرانی الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ، اجتماعی نہیں ہے (محض اپنے لئے راستہ بنانا مقصود تھا) نوازشریف

* ”جو لیڈر حالات کے مطابق یوٹرن نہ لے وہ لیڈر ہی نہیں“ عمران خان

کہا جاتا ہے کہ عوام اپنے حکمرانوں کے دین پہ ہوتے ہیں۔ اگر قوم کے بڑے اور حکمران بات کے پکے نہ ہوں، اپنی رائے پہ قائم رہنے والے نہ ہوں، وعدوں کی پاسداری پہ یقین رکھنے والے نہ ہوں، مکر جانا ان کے نزدیک کوئی برائی نہ ہو، جھوٹ بولنا کوئی جرم نہ ہو، ان کے ہاں کمیٹمنٹ کوئی فضول اصطلاح ہو، ان کے مطابق نعرے اور دعوے صرف سیاست ہو یعنی محض عوام کو بے وقوف بنانا ہو اور اصول واخلاقیات جیسے الفاظ ان کی سیاسی ڈکشنریوں میں ناپید ہوں تو عوام سے اخر کس چیز کی امید کی جاسکتی ہے اور انھیں کیا پڑھانا مقصود ہوتا ہے؟ جھوٹ، وعدہ، خلافی، دھوکہ دہی، خودغرضی، بے اعتمادی اور موقع پرستی کے مظاہر عام ہوں گے اور ایفائے عہد، سچائی، مستقل مزاجی، خوداعتمادی، اصول پرستی اور استقامت جیسے اوصاف ناپید ہوں گے۔ قائدین کرام اور راہنما حضرات سے گزارش ہے کہ

اوّل: تول تول کے بولا کریں، سوچ سوچ کے لکھا کریں اور دیکھ دیکھ کے دیا کریں۔

دوم: اگر غلطی کا احساس ہو تو غلطی کو مان لیجیے، اس پہ ندامت کیجئے، استغفار کیجئے، اس کی اصلاح کیجئے اور آئندہ کے لئے نہ دھرانے کا عزم کیجئے۔ خدارا تاویلات بھی مت کیجئے گا، ڈھٹائی کے ساتھ خوش نما الفاظ کا سہارا بھی مت لیجیے گا اور بے شرمی کے دانت نکال نکال کر ”بداخلاقی کو جواز فراہم کرانے کے لئے نئی نئی اصطلاحوں کو تخلیق کرنے سے گریز بھی کیجئے“

آج تک انصافین دوستوں کو لفظ ”یو ٹرن“ سے چڑ تھی اور جو کوئی اس کو خان صاحب کے لئے استعمال کرنے کی غلطی کر بیٹھتا تو چاروں طرف سے ان پر ”شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھناہٹ“ شروع ہوجاتی یعنی سنگ باری کا ہونا یقینی تھا مگر آج جونہی قبلہ خان صاحب نے اس قبیح اور مکرو لفظ کو ”تقدیس“ عطا فرمائی تو ان حضرات نے بھی اس ”پاکیزہ عمل“ یعنی وعدوں سے مکر جانے کو بام عروج تک پہنچنے کا زینہ گردانا۔ یہ فعل پسندیدہ ترین ٹھرا اور اس کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع ہوگئے اور اتنے فضائل سامنے لائے گئے کہ ایک اس اسے الگ سے ایک اور ”فضائل اعمال“ لکھا جاسکتا ہے۔

فیصل جاوید صاحب نے کچھ ہمت دکھاتے ہوئے فرمایا کہ ”یو ٹرن اور صریح جھوٹ بولنے میں بڑا فرق ہوتا ہے“ یعنی وہ تسلیم فرمارہے ہیں کہ یوٹرن بلاشبہ جھوٹ ہے مگر صریح نہیں۔ ہمارے نزدیک حیرانی بلکہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ آنجناب یعنی سینٹر فیصل جاوید صاحب نے زبردست تحقیق کرکے خان صاحب کے فرمان کو ایک نئی زبردست معنی بلکہ کئی معنوں کا جامہ مبارکہ پہنایا تو کہنا یہ تھا کہ اتنے سارے معنوں کو ڈکشنری میں ایک پیرایے میں کیسے سمویا جاسکے گا۔ زرہ اس تحقیق کو ملاحظہ فرمائیے ”تشخیص، درجہ بندی، تخمینہ، غور کرنا، تجزیہ کرنا یو ٹرن ہوتا ہے“ ایسے میں بندہ رویے کہ پیٹے جگر کو!

آخری بات:

خان صاحب یہ دنیا اتنی بھی جاہل نہیں ہے کہ اسے یہ بھی پتہ نہ ہو کہ حکمت عملی اور منشور تو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں یعنی سادہ الفاظ میں منشور کے حصول کے لئے حکمت عملی اور طریقہ کار طے کیا جاتا ہے۔ منشور وعدہ ہے، نعرہ ہے، دعوی ہے اور خواب دکھانا ہے اور اس سے مکر جانا وعدہ خلافی ہے، جھوٹ ہے اور بداخلاقی ہے۔ اسی طرح حکمت اور منافقت میں بھی زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ یہ دونوں بالکل متضاد الفاظ اور رویے ہیں۔

اصول، کردار، کمیٹمنٹ، وعدوں کی پاسداری، سچائی، یک رخی، استقامت اورقول وفعل میں یکسانیت جیسے اوصاف ہی کسی لیڈر کو بڑا بنا دیتی ہیں اور ان کی شخصیت کو مضبوط کردیتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).