حکومت کے نوے دن


نوّے دِن میں پی ٹی آئی حکومت اپنی سمت متعین کر چکی ہے، کس طرف جانا ہے اور کس طرف بالکل نہیں جانا، یہ بنیادی فیصلے کر لئے گئے ہیں۔ یہ قافلہ سفر پہ روانہ ہو چکا ہے۔ یہاں ہمیں اس سوال سے بحث نہیں کہ یہ قافلہ منزل پہ پہنچ پائے گا یا تھک کے راستے میں ہی رہ جائے گا، فی الحال ہمیں فقط اس کے رُخ سے واسطہ ہے، یعنی اگر آپ کا سفرمغرب کی جانب ہے تو یقیناً سورج آپ کے عقب میں طلوع ہوگا۔

حکومت نے اپنے سفر کے آغاز میں بہت سی ٹاسک فورسز قائم کیں تھیں، جن میں اکنامک ایڈوائزری کونسل بھی شامل تھی، جس کی وجہِ شہرت عاطف میاں کی شمولیت اور پھر اخراج قرار دی جا سکتی ہے۔ یہ ٹاسک فورسز یقیناً اپنے کام میں منہمک ہوں گی، اور جلد ہی اپنی سفارشات سمیت طُلوع ہوں گی۔ لیکن بہرحال عمومی پالیسیوں کے خاکے اور حکومتی مزاج کے واضح اشارے ہمارے سامنے ہیں۔

ان تین ماہ میں حکومت نے اپنی زبان اور عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ریاست کے دوسرے طاقت کے مراکزکی ہر صورت ہم نوا رہنا چاہتی ہے۔ اس ضمن میں حکومت کسی ایڈونچر سے کوسوں دور نظر آ رہی ہے، مستعمل زبان میں جسے کہتے ہیں ’حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں‘ ۔ پچھلے ہفتے جنرل قمر جاوید باجوہ کے فرزند کی ولیمہ کی تقریب کے شُرکا کی تصاویر اس تاثر کو مزید تقویت فراہم کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ مثالی تعلقات خان حکومت کے استحکام کی کلید قرار دی جا رہی ہے۔ ان نوّے دنوں میں خان حکومت اور اس کے حامیوں کے لئے اداروں کی یہ یک سوئی غالباً سب سے اچھی خبر ہے۔ امید ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ کے برعکس، یہ ہم آہنگی آنے والے برسوں میں یوں ہی برقرار رہے گی۔

اپوزیشن کے ضمن میں بھی حکومت اپنی سمت کا واضع اظہار کر چکی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نیب کی تحویل میں ہیں، آصف علی زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے، خواجہ سعد رفیق اور حمزہ شہباز شریف حفاظتی ضمانت پر ہیں، حنیف عباسی اور انجینئر قمر الاسلام بدستور گرفتار ہیں، فواد حسن فواد اور احد چیمہ نیب کی قید میں ہیں۔ وزیرِ اعظم کہتے ہیں ان سب گرفتاریوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، ادارے آزاد ہیں، اور یہ کیسز ہماری حکومت نے قائم نہیں کیے۔

اپوزیشن وزیرِ اعظم اور نیب سربراہ کی تصویریں دکھا کر پوچھتی ہے ’یہ ہیں آزاد ادارے‘ اور یہ کہ پرانے کیسز تو اور بھی بہت سوں کے خلاف ہیں۔ وزیرِ اعظم کہتے ہیں اپوزیشن کو این آر او نہیں ملے گا، اپوزیشن کہتی ہے این آر او تو آپ کو اور آپ کی ہمشیرہ کو ملا ہوا ہے، حکومتی وزراء اسمبلیوں میں ’چور ڈاکو‘ کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں، اپوزیشن جواب آں غزل کے طور پہ حکومتی جماعت کے نصف درجن سے زائد ارکان کو نیب زدہ قرار دیتی ہے۔

ویسے تو اسمبلی میں خان صاحب کی پہلی تقریر سے ہی بہت کچھ واضح ہوگیا تھا، لیکن پھر بھی کچھ تجزیہ نگار وزیرِ اعظم کے لہجے کی اُس تلخی کو ’حدتِ لمحہِ موجود‘ قرار دے رہے تھے۔ وقت نے ان تجزیہ نگاروں کو غلط ثابت کر دیا۔ پی ٹی آئی نے احتساب کے نام پہ انتخاب لڑا تھا، اور اب بھی وہ اسی نعرے پہ قائم ہے۔ اپوزیشن مصر ہے کہ یک طرفہ احتساب کا ہدف فقط حکومت کے سیاسی مخالفین ہیں۔ بہرحال، سوال یہ نہیں ہے کہ اپوزیشن جواباً کیا کہہ رہی ہے، مقصود تو فقط اپوزیشن کے ضمن میں حکومت کی سمت کاجائزہ لینا ہے، اور یہ سمت بتا رہی ہے کہ آنے والے برسوں میں حکومت و اپوزیشن کے درمیان معمول کے تعلقات کی بحالی ایک معجزہ سے کم نہ ہو گی۔ یوں لگتا ہے کہ موجودہ اپوزیشن ارباب ِ نیک و بد کو اپوزیشن کی حیثیت میں بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔

معاشی محاز پر بھی حکومت نے اپنی سمت کا واضع اشارہ دے دیا ہے۔ حکومت کے قول و فعل سے ظاہر ہے کہ معیشت مجبوراً قرض سے چلانا پڑے گی، عوام پہ ٹیکسز بڑھانے پڑیں گے، بالواسطہ ٹیکسز میں اضافہ کرنا ہو گا، اور خسارہ میں چلنے والی کارپوریشنز کی نج کاری نہیں ہو سکے گی۔ برامدات میں اضافہ اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری وغیرہ ابھی دور کی باتیں دکھائی دیتی ہیں۔ مختصراً، حکومت اس سلسلہ میں کسی انقلابی موڈ میں نہیں ہے۔

بیوروکریسی کے باب میں حکومتی رُخ بھانپنا غالباً سب سے آسان ہے۔ ان نوّے دنوں میں خان حکومت بارہا بنا کسی ابہام کے یہ بتا چکی ہے کہ نوکر شاہی حکومت اور حکومتی ارکان کے تابع ہے اور اس سلسلے میں کسی سرکشی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہ قصہ ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے سے شروع ہوا تھا، پنجاب کے آئی جی سے ہوتا ہوا یہ اسلام آباد کے آئی جی تک پہنچا، اور راستے میں اور کئی افسر بہا کر لے گیا۔ پنجاب کے کئی افسران ایسے ہیں جن کی پچھلے چند ہفتوں میں چار پانچ دفعہ مبینہ سیاسی دباؤ پر تعیناتی اور تبدیلی کی جا چکی ہے۔

بیوروکریسی کے ضمن میں حکومتی رویہ کی سب سے دل چسپ مثال دو ڈپٹی کمشنروں کی کہانی ہے۔ چکوال اور راجن پور کے ڈپٹی کمشنروں کو پی ٹی آئی ارکان اسمبلی نے علاقے کے افسروں کے تبادلے اور تعیناتیوں کی فہرستیں تھما دیں، مگر ڈی سیز نے سیاسی دباؤ ماننے سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو تحریری شکایت ارسال کر دی۔ حکومت کا رد عمل دیکھیے، زنجیرِ اختیارات توڑنے پہ افسروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا، مگرسیاسی دباؤ ڈالنے والوں کی گوش مالی کی کوئی خبر ہم تک نہ پہنچ پائی۔

ایس پی طاہر داوڑ کے اغوا کے بعد حکومتی طرز عمل بھی بیوروکریسی اور حکومت کے درمیان خلیج مزید وسیع کرنے کا باعث بنا ہے۔ حکومت اور بیوروکریسی باہمی عدم اعتماد کا شکار ہیں۔ حکومت کے اکثر قابلِ بھروسا مشیر بیوروکریسی سے تعلق نہیں رکھتے، اور جب حکومت ان کی مشاورت سے کوئی پالیسی بناتی ہے اور بیوروکریسی سے اس کا اطلاق چاہتی ہے تومسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بیوروکریٹس کا کہنا ہے کہ یہ پالیسیاں بنانے والے سسٹم سے ناواقف ہیں، اور جب یہ بات حکومت کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں ’بیوروکریسی تعاون نہیں کر رہی‘ یا الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ ’شریفوں کے وفادار ہیں‘ ۔ حکومت اور بیوروکریسی کے تعلقات کا رُخ طے ہو چکا ہے۔ نوکر شاہی نیب اور عدالتی تحرک کے باعث بھی نیم دلی کا شکار ہے۔ اچھی یا بری، حکومتی پالیسیاں نافذ کیسے ہوں گی؟ اس کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں ہے۔

آزادی اظہار رائے کے ضمن میں حکومت کی سمت کیا ہے، اس کا جواب صحافی طلعت حسین بہتر دے سکتے ہیں، پارلے مان کی بالا دستی بارے حکومت کا رویہ کیا ہے، اس پر چیئر مین سینٹ روشنی ڈالیں تو زیادہ مناسب ہو گا، قومیتوں کے حقوق بارے حکومت کیا اشارے دے رہی ہے، ایم این اے محسن داوڑسے پوچھیے۔

قصہ مختصر، نوّے دن میں حکومت کی سمت کا تعین ہو چکا ہے۔ اب تو دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ اے کاش عمران خان اس راستے پہ چلتے چلتے ایک عظیم لیڈر کی حیثیت سے یک دم ایک یو ٹرن لے کر قوم کونہال کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).