یورپ سے علیحدگی: برطانوی سامراجی ذہنیت کی اختراع


برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی کی بے تابی کے عذاب کی وجہ سے برطانوی وزیر اعظم ٹریسا مے اس وقت چومکھی بحران میں گرفتار ہیں۔ 2016 کے ریفرینڈم کو جس میں برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپ سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا تھا ڈھائی سال ہو گئے ہیں. حکومت یورپ سے علیحدگی کے بارے میں سمجھوتہ طے کرنے میں ناکام ہے اور اب جب کہ علیحدگی کی تاریخ 29 مارچ 2019 سر پر آن پہنچی ہے ٹریسا مے نے سخت عجلت میں یورپ سے علیحدگی اور آئندہ رشتوں کے بارے میں جو منصوبہ تیار کیا ہے اس کے خلاف ان کی ٹوری پارٹی میں شدید بغاوت بھڑک اٹھی ہے۔

باغیوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ یورپ کے چنگل سے آزادی کا وہ منصوبہ نہیں ہے جس کے لئے عوام نے ریفرنڈم میں ووٹ دیا تھا۔ ٹریسا مے کی کابینہ کے پانچ وزیروں نے اس منصوبہ کو مسترد کرتے ہوئے استعفی دے دیا ہے اور اب باغی ٹوری اراکین پارلیمنٹ ٹریسا مے کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ادھر حزب مخالف لیبر پارٹی اور دوسرے مخالف جماعتوں نے جن میں اسکاٹش نیشنل پارٹی پیش پیش ہے، اس منصوبہ کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ آخری کوشش کے سلسلہ میں ٹریسا مے اپنے منصوبہ پر یورپی یونین سے حتمی مذاکرات کے لئے 25 نومبر کو برسلز جارہی ہیں لیکن وہاں جو بھی فیصلہ ہوتا ہے اس کی پارلیمنٹ میں منظوری مشکل نظر آتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ کو بغیر کسی سمجھوتے کے یورپ کو الوداع کہنا پڑے گا جس کے تباہ کن نتائج کا سامنا یقینی ہے۔

موجودہ بحران کو دیکھ کر مجھے وہ زمانہ یاد آگیا جب 1974 میں ٹوری پارٹی کے وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ نے برطانیہ کی ابتر اقتصادی صورت حال کے پیش نظر یورپی مشترکہ منڈی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد دوسرے سال ہی لیبر وزیر اعظم ہیرلڈ ولسن نے مشترکہ منڈی میں شمولیت کے مسئلہ پر ریفرنڈم کرایا تھا۔ اُس وقت سارا استدلال یہ تھا کہ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد یورپ میں جنگوں کے خاتمہ کے لئے یورپ کا جو سیاسی، فوجی اور اقتصادی اتحاد قائم کیا گیا ہے اس کو مضبوط بنایا جائے اور یورپ میں شمولیت سے برطانیہ اپنا بین الاقوامی اثرو نفوس دوبارہ حاصل کر سکے گا جو وہ اپنی سمندر پار نوآبادیوں کے خاتمہ کے بعد ہاتھ سے گنوا بیٹھا ہے۔ اس ریفرنڈم میں برطانوی عوام کی اکثریت نے اس قدر جوش و خروش سے یورپی منڈی میں شمولیت کے حق میں فیصلہ کیا تھا جیسے یورپ پر وہ چھا جائیں گے۔ یوں پچھلے چوالیس سال سےبرطانیہ یورپ میں خوشحالی سے سرشار تھا اور متحدہ یورپ سے سیاسی قوت اور اثر و رسوخ حاصل کر رہا تھا۔

لیکن اس دوران UKIPکے نایجل فراج کی قیادت میں نسل پرست قوتوں نے یورپ کے تارکین وطن اور یورپ کے راستے آنے والے پناہ گزینوں کی آمد پر ایسا شور مچایا کہ اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بوکھلا گئے اور انہیں ٹوری پارٹی کے بکھرنےاور اپنے اقتدار کے خاتمہ کا خطرہ پیدا ہوا۔ کیمرون کی اس گھبراہٹ سے نسل پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے اور انہوں نے ٹوری پارٹی کے دائیں بازو کے عناصر سے گٹھ جوڑ کر کے یورپ سے علیحدگی کے لئے مہم چلائی۔ آخر کار کیمرون نے گھٹنے ٹیک دیے اور یورپ سے علیحدگی کے سوال پر ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ریفرنڈم بے حد جذباتی ماحول میں ہوا۔ جس کے دوران سنجیدگی سے یورپ سے علیحدگی کے اقتصادی اور سیاسی مضمرات پر قطعی بحث نہیں کی گئی۔ سارا زور اس پر تھا کہ برطانیہ برسلز میں یورپی یونین کے مرکز کے قواعد اور احکامات کی وجہ سے اپنی خود مختاری کھو بیٹھا ہے اور یورپ سے بلا روک ٹوک یورپیوں کی آمدو رفت کی بنا پر اپنی سرحدوں پر کنٹرول سے محروم ہو گیا ہے۔ اسی کے ساتھ اس پر بھی شور مچایا گیا کہ یورپی عدالت کے دائرہ اختیار کی وجہ سے برطانیہ اپنی عدلیہ کی آزادی کھو بیٹھا ہے۔

اس جذباتی ماحول میں یورپ سے علیحدگی کے حامیوں نے یہ دعوی کیا کہ یورپی یونین کی رکنیت کی بنا پر برطانوی تاریخ کا گہرا تسلسل ٹوٹ گیا ہے۔ اس دعوی کے پس پشت در اصل برطانیہ کے ماضی کی سامراجی ذہنیت کا سراب تھا اور یہ احساس تھا کہ یورپ میں شمولیت کی وجہ سے اس کی پرانی نوآبادیوں والے علاقوں سے اس کا اثرونفوذ معدوم ہو چکا ہے۔ برطانیہ کے عوام کو دوسری عالم گیر جنگ میں چرچل کی قیادت میں برطانیہ کی فوجی بالادستی پر بے حد فخر رہا ہے اور اب بھی یہ عظمت رفتہ کی روشنی سے اپنے قلب گرماتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ اب یورپ کے 28 ملکوں میں سے ایک ملک ہے جسے دنیا کے سپر ملکوں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ عوام ماضی کے سراب میں یہ بھول جاتے ہیں کہ برطانیہ فوجی طور پر اس قابل نہیں کہ وہ دوسر ی عالمی جنگ کی پیمانہ کی جنگ لڑنے کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے سوچے۔ دوسری جنگ میں چرچل کو عالمی سامراجی قوت حاصل تھی۔

برطانیہ میں لوگ 1956 کی سویز کی جنگ بھی یاد کرتے ہیں،جب انتھونی ایڈن نے سویز پر قبضہ کے لئے مصر پر حملہ کیا تھا۔ لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس وقت برطانیہ یورپ کی مالدار معیشت سے سرشار تھا اور اس کی فوجی قوت کا کوئی ہم پلہ نہیں تھا۔ آج برطانیہ محض ایک یورپی طاقت ہے، فرانس اور جرمنی کی طرح۔ اس صورت حال کے لئے دوش برطانیہ کے عوام یورپی یونین کی رکنیت کو دیتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ یورپی یونین سے علیحدگی کے لئے تمام مضمرات سے آنکھیں بند کر کے بے قرار ہیں اور وہ اسے برطانیہ کی خود مختاری کی بازیابی تصور کرتے ہیں۔

اب برطانیہ کے عوام پر یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اگر یورپی یونین سے بغیر کسی سمجھوتے کے علیحدگی اختیار کی گئی تو اس کے نتیجہ میں برطانیہ کا اتحاد پارہ پارہ ہونے کا خطرہ ہے۔ سب سے مشکل مسئلہ شمالی آئیر لینڈ کا ہے جہاں آئی آر کی طویل مسلح جدوجہد اور خانہ جنگی کے بعد رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیاں فرائی ڈے ایگریمنٹ طے پایا تھا اور دونوں فرقوں کے درمیان اقتدار کی شراکت کے علاوہ جمہوریہ آئیرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رکھی گئی ہے۔ برطانیہ کی علیحدگی کے بعد جمہوریہ آئیر لینڈ یورپ میں شامل رہے گا۔ جس کے بعد سرحد پر آزادانہ آمد ور رفت بند ہو جائے گی۔ فوری طور پر اس مسئلہ کے حل کے لئے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے شمالی آئیر لینڈ کسٹم یونین میں شامل رہے گا۔ یورپ سے علیحدگی کے کٹر حامیوں کا اصرار ہے کہ یہ انتظام محدود عرصہ کے لئے ہونا چاہئے لیکن یورپی یونین غیر معینہ عرصہ پر مصر ہے۔ شمالی آئیر لینڈ کے پرو ٹسٹنٹ فرقہ کو خطرہ ہے کہ اس انتظام سے شمالی آئیر لینڈ پر برطانیہ کی خود مختاری کو زک پہنچے گی۔ پھر اسکاٹ لینڈ میں عوام کی اکثریت یورپ میں برقرار رہنے کی حامی ہے، وہاں عوام کا کہنا ہے کہ آئیرلینڈ کے ساتھ جو ترجیح برتی جارہی ہے وہ اسکاٹ لینڈ سے نا انصافی ہے اور اس ناانصافی کی بنیاد پر اسکاٹ لینڈ دوبارہ آزادی کے ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گا۔ یہ صورت حال برطانیہ کے اتحاد لے لئے نہایت خطرناک ہے۔

اگر وزیر اعظم ٹریسا مے اپنی پارٹی کی بغاوت پر قابو پا لیتی ہیں تب بھی یورپ سے علیحدگی کے سمجھوتے کی پارلیمنٹ سے منظوری نا ممکن نظر آتی ہے اور اگر بلا سمجھوتے کے برطانیہ یورپ سے علیحدہ ہوتا ہے تو ٹریسا مے کا نام تاریخ میں برطانیہ کے ناکام ترین وزراے اعظم میں لکھا جائے گا۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani