عمیرہ احمد اور ان کا ناول ‘پیر کامل’


تنقید ایک بہت مشکل امر ہے۔ ناقد کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ سچائی کے دائرہ سے باہر نہ نکلے وگرنہ وہ تعصب کاشکار ہو جائےگا۔ تنقید ہمیشہ بامقصد اور نتیجہ خیز ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوتو یہ ایک لاحاصل بحث ہے۔ پاکستان میں ویسے تو تنقید کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا لیکن کتاب ”پیر کامل” اور عمیرہ احمد نے میرے لیے کو ئی جائے فرارنہیں چھوڑی کہ میں اس پر تبصرہ نہ کر وں۔

عمیرہ احمد عصر حاضر کی ایک معروف و مشہور مصنفہ ہیں جنہوں نے چالیس سے زائد ناول اور متعدد شاہکار ڈرامے لکھے ہیں۔ انہیں متعدد ایواڈ زسے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ان کے ناول نوجوان نسل میں بہت مقبول ہیں۔

”پیر کامل” عمیرہ احمد کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ناول شمار کیا جاتا ہے۔ اس ناول کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جا چکا ہے جس کا نام ”The Perfect Mentor ”ہے۔ یہ ناول ایک لڑکی ”امامہ” کے گرد گھومتا ہے جو عقیدہ کے اعتبار سے احمد ی ہوتی ہے۔ اس کی چند سہیلیا ں اُس کے غلط عقیدہ کے سبب اس سے زیادہ میل ملاپ سے گریز کرتی ہیں۔ سکول اور کالج میں عقیدہ پر بحث کی وجہ سے امامہ اپنے عقیدہ کی تحقیق کرتی ہے۔ وہ چند مسلمان علماء کی تفاسیراور دیگر کتب پڑھتی ہے جس پر اسے اپنا عقیدہ غلط معلوم ہوتا ہے۔ پھر وہ احمدی عقیدہ چھوڑ دیتی ہے اور سنی اسلام قبول کر لیتی ہے۔ پھر اسے ایک لڑکے جلال انصر سے محبت وہ جاتی ہےجو بہت اچھی نعت پڑھتا ہے۔ جلال انصر امامہ سے بوجوہ شادی نہیں کرتا۔ امامہ اپنا عقیدہ بچانے کے لیے گھر سے بھاگ جاتی ہے اوراس سلسلہ میں اس کا ہمسایہ سالار سکندر اس کی مدد کرتا ہے۔ بعد ازاں سالار سکندر کو امامہ سے محبت ہو جاتی ہے اور اس سے شادی ہو جاتی ہے۔

ادیب، شاعر،ناو ل نگار،صحافی اور مصور وغیرہ معاشرہ میں محبت و انس، لطیف خیالات ،معتدل سوچ اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے جذبات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ معاشرہ میں ذہنی ترقی اسی وقت ہوتی ہے جب سوچ کی آزادی اور لطیف جذبات کو بیان کرنے کے لئے نظم و نثر کی آزادی ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب یورپ نے مذہب کو سیاست سے جدا کرتے ہوئے ذہنی اور فکری آزادی دی تو ان میں بڑے بڑے فلاسفر ،سائنسدان اور ادباء پیدا ہوئے۔ اس کے برعکس اگر ادیب اور مصنف جو معاشرہ کو لطیف جذبات اور اعتدال سکھانے کی اخلاقی ذمہ دار ی رکھتے ہیں ،اگر وہ ہی تنگ نظری ،عدم برداشت اور نفرت کے جذبات کو ہوا دینے میں مشغول ہو جائیں تو نتیجہ معاشرہ میں فتنہ و فساد کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ پاکستان کے حالات اس نظریہ کی صداقت کی بہ زبان حال گواہی دے رہے ہیں

افسوس کے ساتھ میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ عمیرہ احمدجیسی اچھی لکھاری اپنی اس خداداد صلاحیت کواخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری کے ساتھ پورا کرتے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کی بجائے احمدیوں کے خلاف تعصب کو ابھارنے ،احمدی طلباء اور طالبات کے لئے پاکستان کی درسگاہوں میں حالات مزید دگرگوں کرنے ،معاشرہ کو نفرت آمیزسوچ سے زہر آلو د کرنے کے لئے استعمال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مصنفہ نے اس ناول میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ احمدی اپنے عقیدے کے اعتبار سے کسی طور پر مسلمان نہیں اس لئے ان سے معاشرتی بائیکاٹ اور ان کے لیے زمین تنگ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

احمدیت کے مخالف علماء نے ہزار ہا کتب تصنیف کی ہوں گی اوروہ اپنا موقف بیان کرنے میں آزاد ہیں لیکن جس بات کی چبھن یہ کتاب پڑھتے ہوئے میں نے اپنے دل میں محسوس کی وہ یہ کہ ناول عام طور پر نوجوان نسل میں زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔ وہ جو ابھی شعور کی عمر میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے ذہن ابھی ناپختہ اور سوچ میں اتنی گہرائی نہیں ہوتی۔ اسی لیے نوجوان جو کتب پڑھتے ہیں یا ماحول دیکھتے ہیں اس کے اثر کو جلد قبول کر لیتے ہیں۔ نوجوانی میں ناول بینی کا شوق ایک عام چیز ہے۔ اس عمر میں اگر ناول کے ذریعہ کسی خاص طبقہ یا فرقہ کے بارہ میں نفرت کو ابھارا جائے اور ہوا دی جائے اور چند مخصوص لوگوں کے عقائد کو لوگوں کے سامنےغلط اور ناقابل قبول ظاہر کیا جائے تو کچی عمر کے قارئین اورنوجوان بچے بچیو ں کے ذہنوں پر یہ نفرت آمیز اور انمٹ نقوش چسپاں ہو جائیں گے اور نتیجة ہمارا معاشرہ جو پہلے ہی لسانی اور مذہبی اعتبار سے طبقہ در طبقہ تقسیم ہے، مزید تقسیم کا شکار ہو جائے گا۔ یہ تو دراصل شہد میں زہر ملا کر دینے والی بات ہے کہ چکھنے والے کو علم بھی نہ ہو اور اس کے ذہن کو مخصوص مقصد کے لیے مسخ بھی کر دیا جائے۔

اس ناول میں مصنفہ نے احمدیوں کے بارہ میں بہت سی ایسی باتیں لکھی ہیں جو سرے سے ہی غلط ہیں اور ایسے عقائد منسوب کیے ہیں جن کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں۔ حسن ظن رکھتے ہوئے میں یہ خیال کرتا ہوں کہ موصوفہ کو احمدیت کے حقیقی عقائد اورنظریات کا علم ہی نہیں ہے۔ موصوفہ کو پورا حق ہے کہ وہ جو چاہیے عقیدہ رکھیں لیکن ان کو یہ حق ہرگز نہیں حاصل کہ وہ دوسرو ں کے بارہ میں وہ عقائد بیان کریں جو درست نہ ہوں۔ اب میں مصنفہ کی بیان کردہ چند باتوں پر تبصرہ کروں گا۔

مصنفہ اس ناول میں متعدد جگہ تحریر کرتی ہیں کہ لوگ پیسے کے لئے احمدیت کو قبول جاتے ہیں جیسا کہ اس نےصفحہ نمبر71 پر امامہ کے والد ہاشم مبین کی مثال دی کہ وہ بہت غریب تھا اور جب وہ احمدی ہوا تو جماعت کی طرف سے اسے بہت مالی امداد ملی جس سے وہ بہت امیر ہو گیا۔

یہ خیال بعید از قیاس ہے کہ وہ لوگ جو صرف پیسے کے لئے اپنا عقیدہ تبدیل کر لیں وہ اس عقیدہ پر اتنی سختی سے کاربند ہو جائیں گے کہ ہر مشکل، ہر تکلیف،سخت ترین دشمنی اور بائیکاٹ بھی ان کو اس عقیدہ سے دور نہ کر سکے۔ گزشتہ تیس سال میں، میں نے کوئی ایک آدمی بھی نہیں دیکھا جس نے احمدیت قبول کی ہو اورپھر اسےجماعت کی طرف بےشمار پیسہ ملا ہو۔ لیکن ایسے ہزاروں آدمی دیکھے ہیں جو باوجود قلیل آمدنی کے اپنا پیٹ کاٹ کر جماعت کو چندہ دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں احمدیوں کا تمام نظام چندوں اور مالی قربانی سے چل رہا ہے۔

پھریہ کہنا کہ بیرون ممالک کی این جی اوز اور دوسری تنظیمیں جماعت احمدیہ کو پیسہ اور مدد فراہم کرتی ہیں یہ ایک مزاحیہ اعتراض سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے ایک طویل عرصے تک اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کی کہ آخر جماعت کو کہاں کہاں سے مالی امداد ملتی ہیں ہماری خفیہ ایجنسی جس کو ہم دنیا کی نمبر ایک انٹیلی جنس ایجنسی کہتے ہیں جو حکومتیں تک ا لٹا سکتی ہے اور روس جیسی سپر پاور کو شکست دے سکتی ہے وہ بھی ایک روپیہ تلاش نہیں کر سکی جو کسی بیرون ملک تنظیم نے جماعت کو دیا۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔ صرف سنی سنائی بات کو بیان کر دینا کسی اچھے مصنف کے معیار کے مطابق نہیں۔

ایک اور اعتراض جو مصنفہ نے اس کتاب میں صفحہ 82 پر اٹھایا وہ یہ ہے کہ احمدیوں کے قرآن کا متن نعوذباللہ تحریف شدہ ہے کوئی انسان جس نے احمدیوں کا شائع شدہ قرآن دیکھا ہو۔ وہ یہ دعوی ہی نہیں کرسکتا احمدیوں اور غیر احمدی مسلمانوں کے قرآن میں فرق ہے میں چیلنج سے کہہ سکتا ہوں کہ جماعت کے شائع کردہ قرآن اور غیر احمدی شائع کردہ قرآن میں ایک حرف کا فرق بھی نہیں ہے۔ جس کلام کی حفاظت خدا تعالیٰ کے ذمہ ہو وہ کیسے بدل سکتا ہے۔ ہاں قرآن کا ترجمہ اور تفاسیر ہر مسلک کی الگ الگ ہیں۔

پھر مصنفہ بڑے دعوی سے صفحہ 154 پرکہ بیان کرتی ہیں احمدی گویا جہنم میں ہیں اور دوسروں کو جہنم کی دعوت دے رہے ہیں۔ میں حیران ہوں کس طرح ایک انسان کسی دوسرے کے بارہ میں یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں۔

پھر مصنفہ اس ناول میں ختم نبوت جیسے حساس اور علمی موضوع کو زیر بحث لائی ہیں۔ مجھے اس جگہ علم الکلام کی بحث کرنا مقصود نہیں۔ صر ف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عقائد کی بحث ادب کے لئے مناسب موضوع نہیں۔

میری اس تحریر سے ہرگز کسی کی دل آزاری مقصود نہیں۔ میرا مقصد صرف ان چند غلط فہمیوں کی وضاحت کرنا تھا جو میں نے یہ کتاب پڑھتے وقت محسوس کیں۔ اگر میرا یہ پیغام عمیرہ احمد تک پہنچ جائے تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).