کیا ایک مسلمان عورت اور دہریہ مرد کی دوستی ہو سکتی ہے؟


سلمیٰ حبیب نے بڑے اہتمام سے اپنا سر اپنے دوپٹے سے ڈھکتے ہوئے میرا استقبال کیا۔’آپ کو کچھ دیر ہو گئی‘
’آپ نے جو ڈائرکشنز دی تھیں ان سے میں کھو گیا اور مجھے ایک گمنام شاعر کا شعر یاد آ گیا
ہم کچھ اس طرح ترے گھر کا پتہ دیتے ہیں
خضر بھی آئے تو گمراہ بنا دیتے ہیں
پھر میں نے اپنی جی پی ایس میں چھپی JESSY سے مشورہ کیا تو وہ میری خضرِ راہ بن گئیں اور آپ کے گھر تک لے آئیں۔‘
’ دراصل میرے گھر کا راستہ تھوڑا سا complicated ہے‘
’تھوڑا سا نہیں بہت سارا کومپلیکیٹڈ ہے۔ آپ کی شخصیت کی طرح‘
’ڈاکٹر صاحب آپ ایک ماہرِ نفسیات ہیں۔ آپ میری تحلیلِ نفسی کر سکتے ہیں۔ آئیں میری گاڑی میں آئیں۔ میں آپ کو ایک رسٹورانٹ میں ڈنر کھلانا چاہتی ہوں‘
’کس رسٹورانٹ میں لے جانا چاہتی ہیں؟‘
’ یہ ایک سرپرائز ہے۔ آپ کو بہت پسند آئے گا‘
’ میں نئے رسٹورانٹ میں کھانا کھانے کے بعد اپنے آپ سے پوچھتا ہوں repeat or delete?۔ پسند آئے تو ریپیٹ۔ نہ پسند آئے تو ڈیلیٹ‘
‘ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ ریپیٹ ہوگا۔ میرا آزمایا ہوا ہے‘
ہم نے ڈنر آرڈر کرنے کے بعد گفتگو کا آغاز کیا تو میں نے کہا
’سلمیٰ صاحبہ جب آپ جیسی نیک پارسا خاتون نے مجھ جیسے پرانے پاپی کو ڈنر کی دعوت دی تو مجھے خواشگوار حیرت ہوئی‘
’ڈاکٹر صاحب ! آپ جانتے ہیں کہ میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں‘
’کس وجہ سے؟‘ میں متجسس تھا
’آپ کی شخصیت میں ایک متانت ہے‘ تحمل ہے‘ بردباری ہے۔ آپ نوجوان لکھاریوں کی ہمت افزائی کرتے ہیں‘
’لیکن ہمارے نظریات میں بعد المشرقین ہے۔ آپ خدا پرست ہیں میں انسان دوست۔ آپ ایکsaint ہیں اور میں ایک sinner‘
’ لیکن میں پھر بھی آپ پر اعتماد کرتی ہوں۔ آپ مریضوں کی بے لوث خدمت کرتے ہیں۔ اگر مجھے کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو تو میں بھی آپ سے مشورہ کر سکتی ہوں‘
کھانے کے دوران کہنے لگیں۔’ میں آج آپ کو اپنی کہانی سناتی ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ اسے لکھیں کیونکہ مجھے کہانی لکھنی نہیں آتی۔ بس اتنا ہے کہ میرا نام مت لکھیں۔ میں گمنام ہی رہوں تو بہتر ہے‘
ہم کھانا بھی کھاتے رہے اور وہ اپنی کہانی بھی سناتی رہیں۔۔ ایک پارسا عورت کی کہانی‘آخر میں کہنے لگیں ’آپ اس شہر میں واحد ادیب ہیں جن پر میں اتنا اعتبار کرتی ہوں‘
میں نے گھر آ کر اپنے آپ سے پوچھا ’کیا میں ایسے کردار کے بارے میں لکھ سکتا ہوں جس کی سوچ میری سوچ سے کوسوں دور ہے۔ لیکن سلمیٰ حبیب نے مجھ پر اعتماد کیا ہے۔ اعتبار کیا ہے۔ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔کم از کم مجھے کوشش تو کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں نے سلمیٰ حبیب بن کر ان کے احساسات‘خیالات اور نظریات ان الفاظ میں رقم کیے۔

سائبان کے بغیر
وہ ایک سائبان کی طرح تھا جو مجھے بارش سے بھی بچاتا تھا اور دھوپ سے بھی۔ وہ میرے ساتھ کسی محفل میں جاتا تو میں محفوظ محسوس کرتی۔مضبوط محسوس کرتی۔میں جب چاہتی اس کے شانے پر سر رکھ لیتی اور وہ مسکرا دیتا۔
اب جبکہ وہ اس دنیا میں نہیں رہا تو مجھے اس کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ اب میں اکیلی ہوں۔ اب میں تنہا ہوں۔ اب میں اداس ہوں۔
مجھے جب پہلی بار کسی مرد نے گھور کر دیکھا ٹکٹکی باندھ کر دیکھا تو میرے سراپا میں کپکپی دوڑ گئی۔ میرے پائوں لڑکھڑانے لگے۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پایا۔
جب پہلی بار مجھے ایک مرد نے چھونے کی کوشش کی تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں نے سوچا میں اکیلی ہوں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں AVAILABLE ہوں۔ اس شام میں کافی دیر تک سو نہ پائی۔ اس رات میں نے فیصلہ کیا کہ میں گھر سے باہر نہ نکلوں گی۔ کسی محفل میں نہ جائوں گی۔ گوشہ نشینی اختیار کر لوں گی۔ دنیا سے کٹ جائوں گی۔ اور میں کئی مہینوں تک اپنے گھر کی چار دیواری میں بند رہی لیکن پھر مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میں نے خود اپنے آپ کو قید کر لیا ہے۔ کسی انجانے جرم کی وجہ سے ہائوس ارسٹ کر دیا ہے۔
پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں پڑھوں گی۔ یونیورسٹی میں داخلہ لوں گی اور ایک ٹیچر بنوں گی۔ درس و تدریس کا پیشہ اختیار کروں گی اور ایک کامیاب زندگی گزاروں گی۔
یونیورسٹی میں مجھے ایک پروفیسر ملے۔ وہ بزرگ تھے۔ وہ بہت نیک تھے۔ مہربان تھے۔ شفیق تھے۔ مجھے یوں لگا جیسے میں ان پر اعتماد کر سکتی ہوں۔ ایک دن ایک کمزور لمحے میں میں نے انہیں بتا دیا کہ میں تنہا اور اداس محسوس کرتی ہوں۔ مجھے تسلی دینے کی بجائے کہنے لگے۔ ’میرے ساتھ ڈیٹ پر چلو۔ احساسِ تنہائی ختم ہو جائے گا‘
میں کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ جملہ سنتے ہی میں اچانک کھڑی ہو گئی جیسے مجھے کسی نے کرنٹ مارا ہو اور میں زار و قطار رونے لگی۔
پوچھنے لگے ’کیا ہوا؟‘
میں نے کہا ’آپ میرے والد کی طرح ہیں۔ آپ میرے والد سے بھی دو سال بڑے ہیں۔میں نے آپ پر اعتماد کیا اور آپ نے میرے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ میں ایک مسلمان عورت ہوں اور اسلام میں ڈیٹنگ جائز نہیں ہے‘
کہنے لگے‘ تم نے سر پر دوپٹہ نہیں لیا تو مجھے کیسے پتہ چلے کہ تم مسلمان ہو‘
اس حادثے کے بعد میں اس پروفیسر سے کبھی نہ ملی۔ میں نے ان کی کلاس چھوڑ دی بلکہ وہ یونیورسٹی ہی چھوڑ دی۔
اس واقعہ کے بعد میں نے اپنے سر پر دوپٹہ لینا شروع کر دیا۔ اب وہ میری شناخت کا حصہ بن گیا ہے۔ میرا دوپٹہ کہتا ہے ’ مجھ سے دور رہو۔ قریب آنے کی کوشش نہ کرو۔ مجھ سے بے تکلف نہ ہو‘۔
ایک صاحب نے بے تکلف ہونے کی کوشش کی کہنے لگے ’کیا میں آپ کو سلمیٰ کہہ سکتا ہوں؟‘
میں نے کہا ’ہرگز نہیں۔ میں آپ کو شریف صاحب کہتی ہوں آپ بھی مجھے سلمیٰ صاحبہ کہیں یا سلمیٰ بہن کہیں۔ یا سلمیٰ آپا کہیں لیکن سلمیٰ نہیں‘
ایک صاحب نے کسی بہانے سے میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ میں اس وقت تو خاموش رہی لیکن گھر جا کر انہیں فون کیا اور کہا ’آپ کو مجھے چھونے کی اجازت نہیں۔ اگر آئندہ ایسی حرکت کرنے کی کوشش کی تو میں آپ سے ملنا چھوڑ دوں گی۔‘ ان صاحب نے معذرت کی اور اس کے بعد وہ ہمیشہ محتاط رہے۔
میرے ایک پرانے کالج کے ہم جماعت نے فیس بک پر لکھا
’ HOW ARE YOU MY BUDDY?
میں نے ترنت جواب دیا I AM NOT YOUR BUDDY آپ مجھ سے احترام سے بات کریں۔ بے تکلف ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ایک دن ایک کنیڈین رفیقِ کار پوچھنے لگا
’کیا آپ ڈیٹنگ پسند کرتی ہیں؟‘
میں نے مسکراتے ہوئے کہا ’اسلامک ڈیٹنگ‘
کہنے لگے ’وہ کیا ہوتی ہے؟.
میں نے کہا NO TOUCHING
وہ کافی دیر تک ہنستے رہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں میں بہت روایتی ہوں کنزروٹیو ہوں دقیانوسی ہوں۔ لیکن مجھے ان کی کوئی فکر نہیں۔ میں کبھی نہیں سوچتی ’لوگ کیا کہیں گے‘ یہ میری زندگی ہے اور میں اسے اپنی مرضی سے گزارنا چاہتی ہوں۔میرا ضمیر صاف ہے۔ اب میں اکیلے رہتی ہوں لیکن بہت سی سماجی محفلوں میں شریک ہوتی ہوں۔ میں نے کافی آزمائشوں کے بعد ایک باوقار‘ پراعتماد ایک باعزت زندگی گزارنا سیکھ لیا ہے۔
لیکن پھر بھی کبھی کبھی میں بہت تنہا محسوس کرتی ہوں۔ اداس ہو جاتی ہوں۔ اس شام وہ مجھے بہت یاد آتا ہے۔ وہ میرا ہمسفر تھا۔ وہ میرا شریکِ حیات تھا۔ وہ مجھے دھوپ اور بارش سے بچایا کرتا تھا۔ وہ میرے لیے ایک سائبان کی طرح تھا۔

***     ***
اگلے دن میں نے سلمٰی حبیب کو فون کر کے اپنے تاثرات سنائے۔ وہ بہت محظوظ ہوئیں۔
میں نے پوچھا ’سلمیٰ حبیب صاحبہ ! کیا آپ کا خیال ہے کہ ایک مسلمان عورت اور ایک دہریہ مرد کی دوستی ہو سکتی ہے؟‘
ہنستے ہوئے کہنے لگیں ’ہو سکتی کیا ہے ہو چکی ہے۔ اور وہ اس لیے کہ ہم ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ نہ آپ مجھے دہریہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ میں آپ کو اسلام کی تبلیغ کرتی ہوں‘۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail