سینکڑوں چینی لڑکیوں کے ہاسٹل میں اکیلا پاکستانی لڑکا


بیس برس کی چینی لڑکی اور اس کے سلکی بال، گوری رنگت (ہلکی سی پیلی) ، صاف چہرہ، مناسب حد تک درازقد، دبلی نہ زیادہ موٹی، لگ بھگ سات انچ کی لمبائی والا شارٹ پہنے ہوئے۔ جی تو مذکورہ لڑکی ان تین سو لڑکیوں میں سے ایک تھی جن کو یونیورسٹی انتظامیہ نے بلڈنگ نمبر دس میں رہائش الاٹ کی ہوئی تھی۔ ابتدائیہ میں مذکورہ لڑکی کی بات میں آگے چل کر کروں گا پہلے میں آپ کو ایک اور بات بتاتا ہوں۔

ہوا ایسے کہ سنہ 2012 میں خاکسار چینیوں کو انگریزی پڑھانے کی سوچ لیے چین چلا گیا جہاں انگریزی زبان کی تدریس کے ساتھ ساتھ چینی زبان سیکھنے کے لیے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا۔ یہ بیرون ملک میرا پہلا سفر تھا۔ میں ایل ایل بی کرنے کے بعد نمل یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کر چکا تھا۔ ایف سی کالج اور نمل یونیورسٹی میں مخلوط نظام تعلیم کا تجربہ بھی حاصل کر چکا تھا۔ اس کے علاوہ میں پاکستان میں مخلوط جماعتوں کو پڑھانے کے عمل سے بھی گزر چکا تھا۔

غرضیکہ بچپن میں والدین کی تربیت مخلوط نظام تعلیم میں پڑھنا اور پڑھانا اور اس کے علاوہ انگلش لٹریچر پڑھنا اور لٹریچر پڑھانے والے اساتذہ کی طرف سے اعلی انسانی اقدار پر ڈالی جانے والی روشنی یہ وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے جنس مخالف کا احترام اور ان کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنے کا قائل ہو چکا تھا۔ جی ہاں تو اب یہ اعلی انسانی اقدار کا پتلا سرزمین چین پہنچ چکا تھا۔

چینی لوگ اگرچہ اپنے تہواروں اور اہم تقریبات پر سرخ رنگ کے لباس زیب تن کرتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے چینی لوگ روایتی طور پر سرخ رنگ کو قسمت کی علامت سمجھتے ہیں مگر لباس کے معاملے میں بہت تیزی سے مغربی انداز اپنا رہے ہیں۔ چینی لڑکیاں آپ کو بیکینی اور بیلی بٹن کے ساتھ نظر تو نہیں آئیں گی البتہ ان کا لباس یورپی اور امریکی لڑکیوں کے لباس سے معمولی فرق کے ساتھ ان جیسا ہی ہوتا ہے۔ سخت سرد علاقوں میں لڑکیاں ٹائٹس پہنتی ہیں جبکہ گرمی کے موسم میں سات یا آٹھ انچ کے سائز کے شارٹس۔

اگر ہم مخالف جنسوں کے تعلقات کی بات کریں تو چین میں گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ سے تعلق کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ دور دراز دیہاتی علاقوں میں کسی حد تک ضرور معیوب جانا جاتا ہے مگر چھوٹے بڑے شہروں میں، یونیورسٹی میں، بسوں میں، ٹرین میں، بار میں اور شاپنگ مالز میں ہر جگہ آپ کو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے، گود میں بیٹھے یا کبھی تو بوس و کنار کرتے نظر آتے ہیں۔

جی تو یہ وہ ماحول تھا جہاں میں پاکستان میں پچیس برس سے زائد کا عرصہ گزارنے کے بعد پہنچا تھا۔ یہ ماحول میرے لیے کسی طور بھی معمولی نہیں تھا۔ بلکہ معمول سے بہت زیادہ مختلف تھا۔ جنس مخالف کے لیے احترام اور ان کی شخصی آزادی کا تصور تو میرے ذہن میں ضرور تھا مگر میں پچیس برس پاکستانی طرز زندگی کا عادی ہونے کی وجہ سے ایک بہت ہی مختلف طرز زندگی میں اپنے آپ کو فطری طور پر ایڈجسٹ نہیں کر پا رہا تھا۔ اتفاقی یا حادثاتی طور پر مجھے جس ہاسٹل میں کمرہ دیا گیا وہ گرلز ہاسٹل تھا۔

اس عمارت کی چار منزلیں تھے۔ میں زمینی منزل پر اکیلا رہتا تھا۔ گراؤنڈ فلور پر تنہائی کا عالم تھا جبکہ اوپر والے تین فلورز پر لگ بھگ تین سو کے قریب لڑکیوں کو کمرے ملے ہوئے تھے جن کی عمریں انیس سے اکیس برس تک تھیں۔ دن میں کئی بار میرا ان لڑکیوں سے سامنا ہوتا۔ میں دیار غیر میں تنہائی اور لڑکیوں کے مختصر لباس کی وجہ سے بہت زیادہ کشش محسوس کرتا۔ ویسے تو مجھے لگ بھگ تمام لڑکیوں سے جنسی رغبت محسوس ہوتی تھی مگر جس لڑکی کا اوپر ذکر ذکر کیا گیا ہے اس کے مخصوص جسمانی خدوخال اور لباس کی وجہ سے میرا دل اس کی طرف زیادہ مائل ہوتا تھا۔

میں جنسی طور پر اپنے آپ کو فرسٹریشن کا شکار محسوس کر رہا تھا۔ چینی نوجوان جو اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے وہ ایک نارمل زندگی گزار رہے تھے جبکہ میں انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اس ساری صورت حال میں میرا کوئی قصور نہیں تھا مگر پھر بھی میں سزا کاٹنے کی کیفیت محسوس کر رہا تھا۔ میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ اگر یہ میرا قصور نہیں ہے تو پھر کس کا قصور ہے؟

اس سوال کے جواب میں میری رائے کچھ اس طرح سے مرتب ہوئی ہے کہ ہمارے پاکستانی معاشرے کے منتظمین نے مخالف جنسی فریقین کے مابین پائی جانے فطری کشش کی حقیقت کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جنسی نظم و ضبط کو قائم رکھنے کی خاطر مخالف جنسوں کے درمیان جو فاصلے رکھے گئے شاید وہ فاصلے کچھ زیادہ تھے اور ایسا کرنا ایک کامیاب تجربہ ثابت نہیں ہوا اور اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے نوجوان بہت زیادہ فرسٹریشن میں جا چکے ہیں۔

ہم نے لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ایک اونچی دیوار کھڑی کرنے کو مسئلے کو حل سمجھا مگر اس حقیقت کو نہیں سمجھا جنس مخالف کی ایک دوسرے سے دوری کی وجہ سے ان کے ایک دوسرے تک پہنچنے کے جذبات زیادہ شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ انگریزی کی ایک کہاوت ہے۔

”Absence makes heart grow fonder“
یعنی کسی چیز کی غیر موجودگی سے اس کے بارے میں دل میں زیادہ شوق پیدا ہو جاتا ہے۔

اب عالم یہ ہے کہ ہمارے اکثر نوجوان بلوغت کی عمر تک پہنچتے ہی لڑکی کے ساتھ دوستی کرنے کو اپنا نصب العین بنا لیتے ہیں اور اپنی زیادہ تر توانائی اپنے کیرئیر پر صرف کرنے کی بجائے لڑکیوں سے تعلقات قائم کرنے پر لگاتے ہیں۔

قصور میں زینب والے سانحہ کا کسی طور پر بھی کوئی جواز نہیں دیا جا سکتا مگر عمران کی متشدد جنسی سوچ کے پیچھے کیا محرکات ہو سکتے ہیں اس بات کو ہمارے معاشرتی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اس گھٹن کے ماحول سے باہر نکالنے کی خاطر ضرورت سے زیادہ پابندیاں لگانے کی بجائے کچھ آزادی دینے کی ضرورت ہے۔ میں نے اس مسئلے کے حل کی طرف مجمل طور پر اپنی رائے دی ہے جو کہ یقینا تفصیل کی محتاج ہے۔ میں اس کا مفصل حل قارئین اور خاص طور پر ماہر عمرانیات و نفسیات پر چھوڑتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).