مہمان، ہنزہ پولیس اور پنجابی افسر


ہوا یوں کہ وقت کا دھارا اب کی باری ہمیں بہا کر ہنزہ اور خنجراب لے گیا۔ راقم کو دیس دیس گھومنے کا موقع ملا ہے۔ گوروں کے دیس دیکھے، کالوں کے دیس دیکھے، اور عربوں کے دیس دیکھے۔ نہیں دیکھا تو بس شمالی پاکستان، کشمیر کا نیلم و شاردا، اور تھر و چولستان نہیں دیکھا کہ بس وہیں جانے کی خواہش ہے۔

ان ملکوں میں سے بہت سے نہایت تہذیب یافتہ گنے جاتے ہیں، کچھ سیاحت کے لیے مشہور ہیں اور وہاں کے لوگ سیاحوں کو لبھانے کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوتے ہیں، کچھ تہذیب و غربت کے لحاظ سے نچلے درجے پر آتے ہیں اور وہاں کے عوام کے رویے میں جہالت و بد تہذیبی جھلتی ہے، اور کچھ انسانی رویوں میں عرب ہوتے ہیں جو ہر ایشیائی کو مسکین سمجھ کر اس کے ساتھ مساکین و یتامی والا سلوک کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

ملک ملک کے گورے دیکھے، کالے دیکھے، مگر ہنزہ والوں جیسے اچھے لوگ کہیں نہیں دیکھے۔ اپنی مدد آپ کرنے کے قائل لوگ ہیں، گلی محلے کی صفائی یا تعلیم و صحت کے لیے گھر بیٹھ کر ’نا اہل کرپٹ حکومت‘ کو گالیاں دینے کی بجائے خود ہاتھ پاؤں ہلانے کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ صاحب، جیسی احترام آدمیت کی فضا وہاں دیکھی ہے، وہ کہیں اور دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہے۔ آدمی کے علاوہ اگر آپ مہمان بھی ہوں، تو بس آپ کا وہاں وہی مقام ہو گا جو کسی دیوتا کا ہوتا ہے۔

ہم پنجاب کے رہنے والوں کو یہ یقین ہے کہ عموماً  کسی بھی علاقے کے بد ترین انسان وہاں کے پولیس والے ہوتے ہیں۔ سو اسی تناظر میں ہنزہ میں دو مرتبہ وہاں کے پولیس والوں سے سابقہ پڑا تو دل چاہا کہ آپ کو اس کی داستان سنائی جائے۔

ایک دن یوں ہوا کہ افطاری سے پندرہ منٹ پہلے ہم دن بھر کا سفر طے کر کے آبادی سے دور ایک ایسے مشہور ریستوران میں پہنچے جہاں جانے کا سیدھا راستہ ایک سو سے زاید سیڑھیاں چڑھنے کے بعد آتا تھا۔ دوسرا راستہ گاڑی سے کچھ آگے جا کر پیدل کی کچھ چڑھائی کا تھا۔ بچوں نے ان سیڑھیوں پر اتر کر دوڑ لگا کر اوپر جانا مناسب جانا۔ اسی اثنا میں وہاں پولیس کی ایک گاڑی اور پروٹوکول کی گاڑی بھی پہنچ گئی۔ ہمیں اب اس عمر میں سیڑھیاں چڑھنے میں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں ہے اور سو تک کی گنتی بھی ہمیں ویسے ہی دہلا دیتی ہے۔ سو ہم گاڑی کے ذریعے دوسرے راستے سے اوپر پہنچے۔ اوپر پہنچ کر ایک ہنزئی پولیس والے مہربان کو دیکھا اور روزہ دار بچے واپس وہ سو سیڑھیاں اتر کر گاڑی کے راستے پر بھاگتے دکھائی دیے۔ گھر بھر کے بچوں کی عمر پانچ سال سے اٹھارہ سال تھی اور ان میں لڑکے لڑکیاں دونوں شامل تھے۔

ہنزئی پولیس والے نے، کہ اس کا نام کیا لیا جائے، بہت ہی لجاجت اور شرمندگی سے عرض کیا کہ جناب، ہمارے ڈی پی او صاحب حاجی ہیں اور نہایت نمازی اور پرہیزگار ہیں۔ دین کا کوئی رکن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ دینی احکامات کی بہت پروا کرتے ہیں۔ سیالکوٹ سے ہیں، نام میں وقار ہی وقار ہے اور بخدا مجسم وقار ہیں۔ اپنی فیملی کے ساتھ یہاں افطاری کرنے کی ان کے من میں سمائی ہے۔ اور گو کہ وہ اس عوامی ریستوران میں افطاری کرنا چاہتے ہیں، مگر اس خدشے سے کہ ان کے گھر کی خواتین کی بے پردگی نہ ہو، وہ کسی دوسرے روزہ دار کو ریستوران میں جانے نہیں دیں گے۔ بس افطاری کے بعد آپ اندر چلے جائیں۔ یہ کہتا ہوا وہ ہنزئی شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ لجاجت، شرمندگی اور ندامت چھلکی پڑ رہی تھی۔ الفاظ تو ہمارے ہیں، مگر بات کچھ ایسی ہی سی تھی۔

خود ہمارا روزہ نہیں تھا، بچوں اور خواتین کا تھا۔ اسے تسلی دی کہ خیر ہے۔ ہم ویسے بھی یہاں غروب آفتاب کی فوٹوگرافی کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری فیملی اندر جا کر افطاری کر لے ہم ویسے بھِی مغرب کے کچھ دیر بعد ہی فوٹوگرافی سے فارغ ہوں گے۔ ہم اور ہمارا بڑا بیٹا تصویریں اتارتے رہے، اس سے بات چیت ہوتی رہی۔ ارد گرد کی برفانی چوٹیوں سے ٹکرا کر آتی ہوئی یخ بستہ اور تیز ہوائیں جسم کو سرد کر رہی تھیں۔ اسی اثنا میں وہاں چند تھکے ہارے کیمپر بھی آ گئے اور چند مقامی بھی جو کہ شکل سے ہی روزہ دار دکھائی دے رہے تھے۔ ان کو بھی اسی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ پولیس والے، کیمپر اور ہم ٹھنڈ کھاتے رہے اور کھانے سے محروم رہے۔ سب سے زیادہ خوش قسمت ہم ہی تھے کہ ہمارے پاس فوٹوگرافی کے نام پر کرنے کو کچھ کام تو تھا۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد ان نہایت ہی پابند صوم و صلوۃ اور دین دار ڈی پی او صاحب نے ریستوران کی جان چھوڑی تو عوام الناس کو اندر جا کر افطاری کرنے کی اجازت ملی۔

ان مقامیوں میں سے کسی نے مقامی زبان میں کسی سے پوچھا جو کہ ہمیں بخوبی سمجھ آ گئی، ’پنجابی افسر ہے؟‘ کہیں سے جواب ملا ’پنجابی افسر ہے!‘۔

بخدا یہ مختصر مکالمہ سن کر ہم شرم سے پانی پانی ہو گئے۔ انہوں نے یہی کہا، مگر جو نہیں کہا وہ کسی بھِی شرم والے پنجابی کو بہت زیادہ بے عزت کرنے کو کافی تھا۔ ان کی نظر میں پورے پاکستان میں صرف پنجابی افسر ہی رعونت کا ایسا بادشاہ ہوتا ہے جو دین کا دعویدار ہو، مگر خود افطاری کرے اور دوسرے روزے داروں کو افطاری کرنے سے بہ جبر روکے۔ ان کو شبہ تک نہیں ہوا کہ یہ افسر سندھ، بلوچستان یا پختونخوا سے ہو سکتا ہے۔ یہ رعونت پنجابی افسر ہی کی ہو سکتی ہے۔

لیکن ہنزہ کے پولیس والے دوبارہ بھی ملے۔ چین نے سی پیک کاریڈور کی حفاظت کے لیے چھبیس ڈبل کیبن دی ہیں۔ ہر گاڑی بیس کلومیٹر کی سڑک پر گشت کرتی ہے۔ کسی جگہ لینڈ سلائیڈنگ ہو، یا کوئی دوسرا مسئلہ ہو تو منٹوں میں یہ پہنچ جاتے ہیں۔ اس واقعے کے چند دن بعد گلگت سے واپس اسلام آباد کا سفر شروع ہوا تو ان سی پیک کے محافظوں سے ملاقات ہوئی۔

ہوا یوں کہ ایک رات پہلے ہی بارش ہوئی تھی۔ چلاس سے خنجراب تک کی سڑک دو رویہ ہے اور اس کی کوالٹی موٹر وے جیسی ہی ہے۔ لیکن بارش کے باعث وہاں ایک جگہ لینڈ سلائیڈنگ سے سڑک بند ہو چکی تھی جسے بظاہر کچھ دیر پہلے ہی کھولا گیا تھا کہ امدادی گاڑیاں وہاں موجود تھیں۔ اس سے ایک کلومیٹر ہی آگے گئے تو ایک جگہ آدھی سڑک کو بڑے پتھروں نے بند کیا ہوا تھا۔ ہم ہائی ایس پر تھے اور ہمارے ڈرائیور صاحب کو یقین تھا کہ اندھے موڑ ان سے بہتر کوئی نہیں مڑ سکتا ہے کہ وہ اگلے موڑ سے ہی دیکھ لیتے ہیں کہ سامنے سے دوسری گاڑی آ رہی ہے یا نہیں۔

دوسری سمت سے آنے والے گلگت کے دو نوجوان بھی اتنے ہی ماہر تھے جو کہ اپنی لینڈ کروزر میں گلگلت کی طرف جا رہے تھے۔ طرفین کی مہارت کا نتیجہ یہ نکلا کہ گاڑیاں آمنے سامنے ٹکرا گئیں۔ کوئی زخمی نہیں ہوا مگر ان کی لینڈ کروزر کے بمپر اور بتی کو نقصان پہنچا اور ہماری گاڑی کی بتی ٹوٹنے کے علاوہ اس کا دروازہ کچھ اندر ہو کر ٹائر سے ٹکرانے لگا تھا۔ معمولی سی کمی بیشی ہوتی تو ہم ایک کلومیٹر نیچے ٹھنڈے ٹھار دریائے سندھ میں ہوتے مگر بچت رہی اور گاڑی حفاظتی جنگلے سے بھی نہیں ٹکرائی۔

خیر، باہر نکل کر مذاکرات شروع ہوئے۔ لینڈ کروزر اسے چلانے والے نوجوان کے بڑے بھائی صاحب کی ملکیت تھی۔ اس کے ساتھ والا نوجوان لاہور میں پڑھتا تھا اور اس نے بہت تسلی دلاسہ دیا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں، فکر مت کریں۔ شکر کرو کسی کو چوٹ نہیں آئی۔ چند منٹ میں ہی کلومیٹر پیچھے سے سڑک صاف کرنے ایف ڈبلیو او کے سادہ لباس فوجی بھی ٹکر کی آواز سن کر آ گئے۔ سب کی خیریت دریافت کی، چیک کیا کہ کوئی زخمی تو نہیں ہے اور کوئی جھگڑا تو نہیں ہو رہا ہے، اور واپس چلے گئے۔ دس منٹ میں سی پیک پولیس پہنچ گئی۔

گلگت بلتستان کی سی پیک پولیس کے عطا اللہ صاحب پوچھنے لگے کہ کیا معاملہ ہے، سب خیریت تو ہے نہ؟ انہیں بتا دیا کہ دونوں گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی غلطی ہے، ہم سے پوچھنے کی بجائے گاڑیوں کے ٹائروں کے نشانات دیکھ لیں۔ ہمیں وہ کہنے لگے کہ زیادہ غلطی آپ ہی کی لگ رہی ہے، لیکن آپ مہمان ہیں۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ آپ لوگ گلگت ہنزہ سے کوئی غلط تاثر لے کر جائیں۔ فکر مت کریں۔ آپ جا کیوں نہیں رہے ہیں؟ آپ کا کیا مطالبہ ہے؟

انہیں بتایا کہ ہم ان کے بڑے بھائی صاحب کے منتظر ہیں۔ یہ اجازت دیں گے تو چلے جائیں گے۔ اس کے بعد وہ ان جوانوں کی طرف گئے اور ان سے مقامی زبان میں مذاکرات شروع کیے۔ الفاظ میں صرف ایک لفظ ہی کچھ مانوس تھا۔۔۔ مہمان۔ آدھے پونے گھنٹے کے بعد بڑے بھائی صاحب تشریف لائے اور اپنی گاڑی کے بمپر کے لیے تیس ہزار کا مطالبہ کر دیا۔ کہنے لگے کہ ورکشاپ ہماری اپنی ہے، ڈینٹنگ پینٹنگ ہم خود کر لیں گے، بس بمپر کے تیس ہزار دے دیں۔ پولیس والوں نے ان بڑے بھائی صاحب کو سڑک کے دو تین چکر لگوائے، موقع دکھایا، بار بار مہمان کا لفظ سنائی دیتا رہا۔ لیکن وہ گلگت کے بڑے بھائی صاحب نہ مانے۔

اس پر عطا اللہ صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ان بڑے بھائی صاحب کو سخت لہجے میں بتایا کہ ساری غلطی تمہاری ہے، اندھوں کی طرح آ رہے تھے، اپنی لین سے ہٹا کر ان کی لین میں لا کر گاڑی ٹھوک دی۔ اب معاملہ حل نہیں ہو رہا ہے تو تھانے چلو، گاڑیاں ہفتے کے لیے بند ہوں گی۔ تمہاری کسٹم فری گاڑی ہے، ورکشاپ تمہاری اپنی ہے، تیس ہزار کا بمپر مانگ رہے ہو جبکہ غلطی بھی تمہاری اپنی ہے اور الٹا تمہیں ان کا نقصان بھرنا چاہیے۔ تیس ہزار ناجائز مانگ رہے ہو، اور وہ بھی مہمان سے؟ ہم ایک طرف خاموش کھڑے دیکھتے رہے اور عطا اللہ اور ان کے ساتھی بڑے بھائی صاحب سے جھگڑتے رہے۔  کچھ گرمی سردی کے بعد گلگت والے بھائی صاحب کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہو گیا تو پولیس والوں نے ہمیں کہا کہ نکلو یہاں سے۔ آگے جا کر اپنی گاڑی کا حال دیکھنا۔ ہم پیچھے پیچھے آتے ہیں۔

وہاں سے آگے نکلے اور کچھ آگے جا کر ان پولیس والوں کی چوکی آئی تو انہوں نے ہمیں ایک طرف ہٹایا اور خود کافی محنت کر کے ہماری گاڑی کا دروازہ سیدھا کیا اور وہ اسلام آباد تک آنے کے قابل ہو گئی۔

بعد میں ڈرائیور نے بتایا کہ اس نے ان پولیس والوں کو معاملہ سلجھ جانے کے بعد چپکے سے ایک ہزار روپے دینے کی کوشش کی تھی کہ افطاری کر لینا۔ پولیس نے سختی سے وہ پیسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں پنجاب پولیس سمجھا ہوا ہے؟ یہ گلگت بلتستان ہے، پنجاب نہیں‘۔

اپنے شہر کو واپس لوٹنے والے مہمان بے فکر تھے اور گلگت بلتستان سے جو تاثر لے کر واپس آئے ہیں، وہ وہاں کا کوئی غلط تاثر نہیں ہے۔ وہ تاثر تو بے کراں محبت اور عزت کا تاثر ہے۔

کاش گلگت بلتستان کی پولیس کو وہاں کے مقامی افسر بھی مل جائیں۔ وہاں کے وہ مقامی افسر جو مقامی روایت کے مطابق خود بھوکے رہ کر اپنی افطاری مہمانوں کو کھلانے والے ہوں گے، مہمانوں اور مقامیوں کو افطاری سے روک کر خود کھانے والے نہیں۔ کاش وہاں وقار نہ ہوں، اور عطا اللہ ہی ہوں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments