نجی جیل


دن اب شام میں بد ل رہا تھا۔ سارا دن شعلے برساتا سورج تھک ہار کر ڈوبنے چلا تھا۔ نہر پہ کھڑے بوڑھے دھرم جی نے پہلے اپنی دھوتی دھوئی پھر خود نہایا اب اسی صابن سے اپنے گدھے کو نہلارہا تھا۔ سورج ڈھلنے سے پہلے ہی اسے گھر تک پہنچناتھا۔ جب گھر پہنچا تو رات اپنے پر پھیلا رہی تھی۔ لچھمی نے رات کی روٹی ڈال کے رکھی تھی اور اپنے باپو کا انتظار کررہی تھی۔ لچھمی کو اپنے باپ نے ماں بن کے پالاتھا۔ کسی طرح بھی ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی۔

یہی وجہ تھی کہ وہ بھی ان کو باپ اور ماں دونوں کا پیار دھرم جی سے ہی کرتی۔ لچھمی اب اتنی سمجھدار تو تھی ہی کہ اندازہ کرسکتی تھی کہ جیسے ہی زمیندار کچھ پیسے اس کے باپو کی ہتھیلی پہ رکھے گا تو اس کی شادی کردی جائے گی۔ لچھمی کی اپنی ہی دنیا تھی جہاں اسی کی گڑیاں، بکریاں اور دھرم جی تھے۔ وہ ان میں سے کسی کو بھی چھوڑ کے جانا نہیں چاہتی تھی۔ دھرم جی نے اپنی بیٹی کی آنکھوں میں چھپے ستارے دیکھ لئے تھے۔

لچھمی نے جیسے ہی باپو کو آتے دیکھا بھاگ کے روٹی نکالی۔ یہاں کے زمیندار ننگر پارکر سے میواسی پار کھری کولہیوں کو یہاں لے آئے تھے۔ جو یہاں کے چھوٹے بڑے زمیندار وں کی کھیتی کرتے۔ نہر کے ہی پاس ان لوگوں کے کچے گھر بنے ہوئے تھے۔ زمیندار لوگ ان سے بہت ہی خوش تھے یہ محنت کرکے ہر دفعہ ہی بمپر فصل لے آتے۔ کچھ سالوں سے فصل بہت ہی اچھی آرہی تھی حکومت بھی اچھے داموں ہی خرید لیتی۔ اور تو اور زرعی ترقیاتی بینک اور کوآپریٹیو سوسائٹیز زمینداروں کو دھڑا دھڑ قرضہ دے رہی تھیں۔

سب لوگوں کے ذہن میں یہ تھا کہ عوامی حکومت سے جتنا جی چاہے قرضہ لے لو کون سا واپس کرنا ہے۔ اتنا پیسہ کہیں تو جانا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں خبر آگئی بڑے زمیندار نے کراچی میں ہیرا منڈی سے تعلق رکھنے والی زمرد بیگم سے شادی کرلی ہے اور اسے ڈیفنس میں بنگلے میں رکھا ہوا ہے۔ گاؤں میں رئیس کی شادی کا سن کر سب خوش نہیں تھے۔ خاص طور پر پہلی بیوی اور دو جوان بیٹے تو بہت ہی ناراض ہوئے تھے۔ زمیندار کی پہلی بیوی گاؤں میں ہی رہیں جہاں قریبی شہر میں ان کا آنا جانا تو تھاہی پر رئیس نے اس عمر میں تو ان کا جی ہی جلادیا تھا۔

کولہیوں کے سارے محلے میں ایک رامو ہی تھا جو چپ چاپ رہتا۔ اپنے کام سے کام رکھتا۔ ناچنے گانے میں اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی پر ٹھرا وہ سب کے ساتھ مل کے ہی پیتا۔ ایک ہی چیز تھی جو اسے سکون دیتی تھی۔ محلے کے کئی گھروں سے کبھی مارپیٹ جھگڑے کی آواز آتی کبھی گانے بجانے کی پررامو کے گھر میں عجیب سا سکوت حاوی تھا۔ رامو کی بیوی بہت ہی خوبصورت تھی دونوں میاں بیوی میں محبت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ رامو ایسے کالے بھجنگ کو ایسے نفرت سے دیکھتی کہ اس کے دل میں دور دور تک اندھیرا قابض ہوجاتا۔

وہ ایک خوبصورت سی طوطی تھی جو راموں کی قید میں اپنے برے نصیبوں سے آپھنسی تھی۔ رامو کے گھر سے لگتا مان سنگھ کا گھر تھا۔ مان سنگھ بہت ہی اچھا ہاری ثابت ہوا تھا۔ گو کہ اس کا قد کوئی تین فٹ کے قریب تھا پر اس کو کسی قسم کی کوئی احساس کمتری نہیں تھی۔ طبیعت میں بڑا ہی خوش مزاج واقع ہوا تھا پر غصے میں تو وہ اپنی جوتی ہاتھ میں ہی رکھتا۔ غصہ وہ ہمیشہ اپنی بیوی پر ہی نکالتا یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ اس کے رعب میں رہتی۔

زندگی آہستہ آہستہ سرکتی آگے بڑھتی جارہی تھی کہ اس بیچ میں رام جی کولہی کا میلہ لگا۔ رام جی کولہی کے میلے میں کولہی برادری دوردراز سے بغیر جوتوں کے پیدل ہی میلے میں پہنچتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں مخصوص لال جھنڈے ہوتے ہیں۔ گاڑیوں میں سوزوکیوں میں بھی بھر بھر کے وہ میلے میں پہنچ رہے ہوتے ہیں۔ وہ سب جوش میں اور خوش ہوتے ہیں۔ میلہ عروج پر تھا۔ مان سنگھ میلے میں ادھر اُدھر گھوم گھام رہا تھا۔ ایک جگہ بندریا کا تماشا ہورہا تھا۔

وہیں ایک گہری سانولی لمبے قد والی کولہن بھی تماشے میں شامل تھی۔ مان سنگھ کی نظروں میں تو جیسے گوند لگا گیا تھا کہ وہ ادھر اُدھر ہلتی ہی نہیں تھیں۔ اس سانولی نے دوپٹے کو دانتوں تلے دبا رکھا تھا اور بندریاکے تماشے میں گم ہی تھی۔ سب لوگ بندریا کو دیکھ رہے تھے۔ اور مان سنگھ اس سانولی کوپھر وہ اپنے خاندان کے ساتھ میلے میں گھومتی رہی اور مان سنگھ ان کے پیچھے پیچھے پھرتا رہا۔ میلے میں سب ہی کولہی ایک دوسرے کے جاننے والے تھے اس نے بھی بڑی ہوشیاری سے اس کٹاری کا پتہ معلوم کرہی لیا۔

حسن اتفاق سے وہ بھوری آنکھوں والی گہرے سانولے رنگ کی لڑکی مان سنگھ کے گاؤں کے پڑوس میں ہی تھی۔ وہ لوگ بھی مان سنگھ کے زمیندار کے رشتہ دار زمیندار کے ہاری تھے۔ میلے سے واپس پہنچ کے مان سنگھ نے اپنی شخصیت کی اصلاح کرنا شروع کردی۔ میلے سے وہ عطر کی شیشی تولے ہی آیا تھا۔ اب وہ گھر سے آنکھوں میں سرما لگا کر بالوں میں تیل لگا کر اچھی طرح سے کنگھی کرتا تھا۔ کچھ دن تک مسلسل مان سنگھ کی شخصیت میں یہ اصلاحات دیکھ کر تو اس کی بیوی کو شک کے ناگ ڈسنے لگے پر وہ کچھ بھی کرنہیں سکتی تھی کہ جیسے ہی وہ کچھ کہنے لگتی تو مان سنگھ جوتا ہاتھ میں لے لیتا۔

سورج نکلنے سے پہلے ہی دونوں میاں بیوی کھیتی کے لئے ساتھ نکلتے۔ پر مان سنگھ وہاں پہنچ کے چادر کا جھولا درختوں میں باندھ کے چھوٹے کو اس میں ڈالتا اور خود رفوچکر ہوجاتا۔ آج شام سے ہی لچھمی کے گھر سب محلے والے جمع ہوگئے تھے۔ جوان لڑکیاں گارہی تھیں بڑی بوڑھیاں باتوں میں مصروف تھیں۔ کل لچھمی کا لگن کے جانا تھا لچھمی کو حسب روایت دور ہی بیاہا جا رہا تھا۔ مردوں کی ٹولی الگ سی بیٹھی تھی۔ ماسی ویزڑی گڑ کی چائے بنا کے لے کے آئی۔

سب خوش تھے پر کچھ اداسی تھی۔ ابھی دو دن پہلے ہی تو بکری نے دو بچے دیے تھے جو صبح چل کے ہی نہیں پا رہے تھے۔ اب ان کا خیال کون رکھے گا یہ سوچتے ہی اس کی آنکھیں جھلملانے لگتیں۔ مان سنگھ کے بدلے انداز آخر رنگ دکھانے لگے۔ آخر کو ایک دن پورے گاؤں میں ہی یہ خبر خوشبو کی طرح پھیل گئی مان سنگھ اس چھوری کو بھگا کے لے کے گیا ہے۔ لڑکی کے گھر والے تو ڈھونڈنے نکلے ہی تھے پر سب سے زیادہ سرگرمی سانولی کے چاہنے والے دکھارہے تھے۔

ابھی یہ بھگوڑا جوڑا کچھ کلو میٹر تک ہی آگے گیا ہوگا کہ لڑکی کے چاہنے والوں نے اسے آلیا۔ مان سنگھ جیسے ہی غصے میں پھنکارتے ہوئے آگے بڑھتے لڑکے دیکھے تو وہ اپنی معشوقہ کے گھاگھرے میں چھپ گیا۔ بھائیوں نے اسے دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کے خوب پیٹا مارا۔ مان سنگھ لتر کھا کر گھر پہنچا تو زخم گہرے تھے پر عشق پہلے سے بھی زیادہ گہرا ہو چکا تھا۔ اس کی بیوی اس پر ہنستی تو کبھی اپنے آپ پر رونے لگتی۔ رامو اس سارے قصے سے کوئی سروکار نہیں رکھتا کہ اس پر بجلیاں تو پہلے ہی سے گرنے لگی تھیں اسے پتا چل چکا تھا کہ اس کی بیوی سونی جو سونے ایسی ہی دکھتی تھی کسی مسلمان زمیندار سے نکاح کے چکر میں ہے۔

وہ اسے دیکھ کے نفرت سے منہ پھیر لیتی تھی۔ رامو اس کو اتنا ہی چاہتا جتنا کہ کسی کو چاہا جا سکتا ہے پر سونی پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ گھاس کاٹنے نکلتی تو کہیں غائب ہوجاتی۔ وہ گھر میں مہمان کی طرح رہتی اور خود کو مسلمان سمجھنے لگی تھی۔ اب جب کانوڑے کے دن آئے تو سونی نے کانوڑے کی مٹی لانے سے صاف انکار کردیا جو رسم کے مطابق سب کو ساتھ جاکے لینی تھی۔ سونی نے کانوڑے کی کسی سرگرمی میں کوئی حصہ نہیں لیا تو چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں۔

موسم سرما کی اداس شامیں جب شروع ہوئی تھیں تو رامو کو ہر وقت ہی کوئی دھڑکا لگا رہنے لگا۔ مامی اسے بہت سمجھا کے گئی کہ کچھ تو رعب کرو کچھ تو دبا کے رکھو اسے نکل گئی تو کوئی بھی تم کو لڑکی نہیں دے گا۔ یہاں تو لڑکیوں کا کال پڑا ہے۔ یہ سنتے ہی رامو کا گلا خشک ہوگیا جیسے کانٹے سے چبنے لگے تھے۔ اس نے بھاگ کر کوئی تین گلاس پانی پیا وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ سوائے انتظارکے کہ جو ہونا ہے وہ ہوتا ہے۔ اس دفعہ کپاس کی فصل بہت اچھی ہوئی تھی۔

رئیس نے اپنی نئی نویلی دلہن زمرد بیگم کے فرمائش پر اسے سوئٹزر لینڈ گھمانے فیصلہ کیا تھا۔ پر جیسے ہی فصل تیار ہوئی حکومت کی طرف سے قیمت گرادی گئی۔ سب زمیندار پریشان ہوگئے لاکھوں روپوں کای کھاد زرعی دوائیں اور تو اور آبپاشی انجینئروں سے پیسوں کے عیوض لیا گیا پانی سب ہی کچھ گلے میں پڑرہا تھا۔ رئیس کا سوئٹزر لینڈ کا پروگرام بیچ میں ہی لٹک گیا۔ زمرد بیگم کی آنکھوں میں اداسی اس سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ وہ اس کو تسلی دیتا کہ ادا س کیوں ہوتی ہو بس مرچی کی فصل آنے دو تمہیں سب گھمادوں گا ابھی۔

میرے سے بھلائی کر روٹھو نہیں تمہیں کوہ مری لے کے چلتا ہوں۔ کہاں سوئٹزر لینڈ کہاں کوہ مری دلہن بیگم کے ہونٹوں سے مسکراہٹ کسی نے چھین لی تھی۔ ویسے تو زمیندار اچھا آدمی تھا پر حالات کے بھنور میں آن پھنسا تھا اور ادھر اُدھر ہاتھ پیر ماررہا تھا۔ رئیس کے دونوں بیٹوں نے اپنے باپ کی نئی شادی کے بعد سے غصے میں آگے ہیروئین کا نشہ کرنے لگے تھے۔ ہیروئین دونوں کوہی تباہی کی طرف لئے جارہی تھی۔ دونوں ہی نے دونوں ہاتھوں سے پیسے کو لٹایا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3