میں اُس کی بیوی سے ملنا چاہتا تھا


گاڑی سے سامان اتارا جا چکا تھا۔ میں اور میری بیوی نگار اپنے کرائے کے مکان کے دروازے پر کھڑے سوچ رہے تھے کہ یہ سامان گھر میں کیسے منتقل ہو گا تب ایک ہنستا ہوا چہرہ سامنے آیا۔ وہ میرا ہم عمر شخص تھا۔ ”اگر مدد کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیے، میں آپ کا پڑوسی ہوں۔ میرا نام کمال ہے۔ “ یہ کمال سے میرا پہلا تعارف تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ہماری نئی نئی شادی ہوئی ہے اسی لئے یہاں آئے ہیں، اس سے قبل میں اپنے دفتر کی طرف سے فراہم کردہ سنگل روم میں رہتا تھا۔

کمال واقعی کمال کا شخص تھا۔ اس نے فوراً ہمیں ڈنر کی دعوت دے ڈالی۔ شام کو ہم اُس کے ہاں پہنچے۔ بیل بجائی تو کمال نے مسکراتے ہوئے ہمیں خوش آمدید کہا۔ پھر بصد احترام اپنے ڈرائینگ روم میں بٹھایا۔ کچن سے بڑی اشتہا انگیز خوشبو اٹھ رہی تھی۔ ”کمال صاحب آپ کا گھر بہت خوبصورت ہے۔ “ نگار نے گھر کی تعریف کی تو کمال کھل اٹھا۔ ”شکریہ بھابی! یہ تو آپ کا حسنِ نظر ہے۔ “

ایک دس بارہ سال کی لڑکی کچن سے کھانے پینے کی اشیا لا کر ڈائنگ ٹیبل پر رکھ رہی تھی۔ ”اس بچی کو شاید مشکل در پیش ہے۔ “ میں نے اس طرف توجہ دلائی۔ ”نہیں یہ اس کے لئے معمول کی بات ہے۔ یہ ہماری ملازمہ ہے۔ “ کمال نے بتایا تو میں نے سر ہلا دیا۔ پھر وہ خود اٹھا اور کچھ ڈشیں خود کچن سے لا کر میز پر رکھنے لگا۔

”میں ان کی مدد کر دیتی ہوں۔ “ نگار نے میری طرف دیکھا۔ میں نے سر ہلا دیا۔ نگار کچن میں اس کی بیوی کے پاس چلی گئی۔ کمال میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں، نگار اور کمال ڈائننگ ٹیبل پر تھے۔

” شروع کیجئیے ناں! کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ “ کمال نے ہمیں ہاتھ باندھے بیٹھے دیکھ کر کہا۔ ”ہم تو بھابی صاحبہ کا انتظار کر رہے تھے، وہ آ جائیں تو شروع کریں۔ “ میں نے کہا۔ ”وہ نہیں آئیں گی۔ دراصل وہ پردہ کرتی ہیں۔ “ کمال نے فوراً کہا۔

” اوہ! مجھے معلوم نہیں تھا۔ “ میں نے معذرت کی۔ کھانے کے دوران کمال چہکتا رہا۔ ہم اٹھنے لگے تو اس نے چائے کے لئے روک لیا۔ چائے کے دوران بھی اس کے لطیفے سن سن کر ہم ہنستے رہے۔ گھر آ کر بھی اس کے بارے میں بات کرتے رہے۔ خاصا دلچسپ آدمی تھا۔

اس کے بعد کمال کا میرے گھر آنا جانا شروع ہو گیا۔ اکثر کھانا بھی ہمارے ساتھ ہی کھاتا۔ اس نے ہمیں دو تین بار کھانے کی دعوت دی۔ یہ دعوت گھر میں نہیں کسی ریسٹورانٹ میں ہوتی تھی اور اس میں تین لوگ شامل ہوتے تھے۔ میں، نگار اور کمال۔ ایک دن جب کمال ہمارے گھر میں بیٹھا تھا۔ گپ شپ چل رہی تھی تو نگار نے اچانک کہا۔ ”کمال صاحب میری طرف سے بھابی صاحبہ کی دعوت ہے لیکن آپ کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، کل شام آپ دونوں ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ “

” نہیں بھابی یہ ممکن نہیں ہو گا۔ میری بیوی کسی کے گھر جانا پسند نہیں کرتی۔ “ کمال نے فوراً کہا۔ ”چلئے کوئی بات نہیں، لیکن آپ میری طرف سے دعوت ضرور دیجیے گا۔ “ نگار نے کسی قدر مایوسی سے کہا۔

اب کمال میرے ساتھ زیادہ گھل مل گیا تھا، شاپنگ کے لئے بھی اکثر میرے ساتھ جاتا۔ شام کو ہم پارک میں واک کے لئے جاتے۔ میں اور نگار گھومنے پھرنے کا شوق رکھتے تھے۔ میری تنخواہ معقول تھی میں نے بنک سے مہران گاڑی قسطوں پر حاصل کر لی۔ اب تو روزانہ ہم شام کو باہر نکل جاتے۔ کبھی کسی شاپنگ مال میں ونڈو شاپنگ کرتے کبھی پارکوں میں گھومتے اور تفریحی مقامات پر جاتے۔ نئے نئے ریسٹورانٹس میں کھانے کھاتے۔ نئی فلم لگتی تو کسی اچھے سینما کا رخ کرتے۔

ایک بار ایک مووی دیکھنے سینما میں داخل ہوئے تو کمال مل گیا۔ گلہ کرنے لگا کہ میں اسے وقت نہیں دے رہا ہوں۔ میں نے معذرت کی اور پوچھا۔ ”تم کہاں؟ “ ہنستے ہوئے بولا۔ کیوں زندگی کو صرف تم انجوائے کر سکتے ہو میں نہیں۔ فلم دیکھنے آیا ہوں۔ ”

نگار نے بعد میں مجھ سے کہا کہ واقعی آپ نے گذشتہ دنوں کمال کو کافی اگنور کیا ہے۔ میں نے سوچا کہ بات تو ٹھیک ہے۔ کمال کو فون کر کے گھر بلایا۔ وہ آیا تو اس کے سامنے ایک تجویز رکھ دی۔ ”کمال پہلے تو میرے پاس کار نہیں تھی۔ اب یہ سہولت موجود ہے تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سیر کا پروگرام بناتے ہیں کشمیر سے گھوم کر آتے ہیں۔ پورے ایک ہفتے کا ٹرپ“

میری بات سن کر کمال کھل اٹھا۔ ”واہ کیا بات ہے! “ لیکن بھابی کو بھی ساتھ لانا۔ وہ بھی انجوائے کر لیں گی۔ ”میں نے کہا۔ “ نہیں یار اسے سیر وغیرہ سے رتی بھر دلچسپی نہیں۔ میں اسے میکے چھوڑ آؤں گا۔ میں ضرو چلوں گا آپ کے ساتھ۔ ”نگار نے میری طرف دیکھا۔ میں خاموش ہو گیا۔

مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ اُس کی بیوی کی دلچسپی کسی چیز میں نہیں ہوتی تھی۔ کیا دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ میرے پر تجسس دل میں طرح طرح کے سوالات اٹھنے لگے تھے لیکن میں جوابات حاصل کرنے سے قاصر تھا۔ جوابات تو اس کی بیوی ہی دے سکتی تھی۔

ایک دن میں نے نگار سے پوچھا کہ کیا واقعی کمال کی کوئی بیوی ہے یا یہ اُس کا وہم ہے؟ میں اس کی بیوی سے ملنا چاہتا ہوں یہ جاننے کے لئے کہ وہ کس سیارے سے آئی ہے۔ نگار ہنسنے لگی۔ ”حد کرتے ہیں آپ بھی۔ “

کشمیر کا پروگرام ابھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچا تھا کہ ایک دن اچانک کمال کے نمبر سے ایک کال آئی۔ تین چار دن سے کمال سے رابطہ نہیں ہوا تھا۔ میں نے کال رسیو کی۔ دوسری طرف سے کمال کی بجائے ایک اجنبی آواز سنائی دی۔ آواز کسی لڑکی کی تھی۔ میں سمجھا کہ کمال کی بیوی ہوگی۔ لیکن اس نے بتایا کہ وہ نرس ہے۔

اس نے ایسی خبر سنائی کہ دل دھک سے رہ گیا۔ کمال ہسپتال میں تھا اور بے ہوش تھا۔ میں فوراً ہسپتال پہنچا۔ ڈاکٹر سے ملا۔ معلوم ہوا کہ شہر سے کچھ دور ویرانے میں کسی شخص نے کمال کو زخموں سے چور دیکھا تو ہسپتال پہنچایا۔ اس کا والٹ جیب میں نہیں تھا، سادہ سا موبائل موجود تھا لیکن ضرب لگنے سے ناکارہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹرز اسے بچانے کی کوشش کرتے رہے اسی دوران موبائل کی سم جو محفوظ رہی تھی اسے دوسرے موبائل میں ڈال کر انہوں نے پہلا نمبر ڈائل کیا تو مجھ سے رابطہ ہوا۔

کمال کی حالت بہت خراب تھی۔ میں ہسپتال سے افراتفری کے عالم میں نکلا۔ کار کا رخ اس کے گھر کی جانب تھا۔ میں اُس کی بیوی سے ملنا چاہتا تھا۔ اسے کمال کے بارے میں بتانا چاہتا تھا۔ اس کے دروازے پر پہنچ کر میں ایک لمحے کے لئے رکا۔ پھر آگے بڑھ کر بیل بجائی۔ کوئی جلدی سے دروازے پر آیا۔ ”کون ہے؟ “ ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ ”دروازہ کھولیں، آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ “ میں نے اپنا نام بتاتے ہوئے کہا۔

” تو پھر تالا توڑ دیں، میں تو تین دن سے گھر میں بند ہوں۔ “ اندر سے تیز لہجے میں کہا گیا۔ تب میں نے دروازے کو غور سے دیکھا اس پر تالا پڑا تھا۔ ایک پتھر کام آیا اور تالا ٹوٹ گیا۔ میں نے جلدی جلدی اسے کمال کی حالت کے بارے میں بتایا۔ وہ بے تاثر چہرے سے سنتی رہی۔

بہر حال معلوم یہ ہوا کہ کمال جب بھی گھر سے باہر جاتا تھا باہر سے تالا لگا جاتا تھا۔ اور یہ اس کی یہ حالت غلط فہمی کا نتیجہ تھی۔ کسی اور کے دھوکے میں اغوا ہوا تھا انہوں نے تین دن بعد اپنی طرف سے مار کر پھینک دیا تھا۔
کمال تو ٹھیک ہو گیا۔ لیکن اس دن کے بعد اس کی بیوی گھر واپس نہ گئی۔ شاید اس نے طلاق لے لی تھی۔ میں نے کبھی کمال سے پوچھا نہیں کہ کیا ہوا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).