استحقاق اور ایمان


ماسٹر صاحب سے ملنے کے لیے آنے والے بہت سے لوگ مجھ سے بھی ملتے۔ بہت سے لوگوں کا فون آتا ان کی خیریت پتہ کرنے کے لیے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ انہو ں نے بڑی محنت، ایمانداری سے بچوں کو اسکول میں پڑھایا تھا۔ ایک کنکشن، تعلق، رشتہ تھا ان کا اپنے طالب علموں کے ساتھ۔ جس کی بنیاد سادگی اور ایمانداری ہی تھی۔ بہت محبت کرنے والے استاد رہے ہوں گے وہ۔ تبھی تو لوگوں کا تانتا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں ہے۔

جس دن ان کا آپریشن تھا اس دن مجھے پتہ چلا کہ لانڈھی کے اس اسکول میں صبح اسمبلی کے بعد ان کے لیے دُعا کی گئی ہے اور آپریشن تھیٹر کے باہر اسکول کے ہیڈ ماسٹر، ٹیچروں اور اسکول کے بچوں کی ایک فوج بھی کھڑی تھی۔

صائمہ نے مجھے بتایا کہ آپریشن کی رات کو انہوں نے اپنے بڑے داماد کو بلا کر کہا کہ وہ اب بچ نہیں سکیں گے کیونکہ آپریشن ٹیومر کو پھیپھڑوں سے نکالے گا مگر جسم کے دوسرے حصّوں سے نہیں نکال سکے گا، زندگی شاید تھوڑی بڑھ جائے مگر بچ نہیں سکے گی۔ انہو ں نے جمع کیے ہوئے ایک لاکھ انتہر ہزار دو سو ترانوے روپے کا ایک چیک بھی انہیں دیا اور کہا کہ بیٹے میں مروں کہ جیوں، مگر تمہیں اس رقم سے اپنی ساس کو حج ضرور کرانا ہے۔ میرا اب کچھ نہیں ہوسکے گا وہ حج کرلے گی تو میں سمجھوں گا میرا بھی حج ہوگیا۔ جتنی محبت اس نے ساری زندگی مجھ سے میرے بچوں سے کی ہے اس کا بدل تو کوئی نہیں ہے لیکن اس کے دل کی یہ آرزو کہ وہ حج کرلے اگر پوری ہوگئی تو میں سکون سے مرسکوں گا۔ اور اگرمیں مر گیا تو اس کے حج کی خبر ہی میرے لیے جنت ہوگی۔

میرے دل میں نہ جانے کیا کیا خیال آئے اور آکر چلے گئے میں نے سوچا کہ شاید زندگی میں کبھی بھی انہوں نے گلدستہ نہیں بھیجا ہوگا اپنی بیوی کو، کوئی کارڈ نہیں لکھا ہوگا اور شاید منہ سے ایک بار اپنی محبت کا اقرار بھی نہیں کیا ہو شاید انہیں پتہ بھی نہ ہو کہ ان کی سالگرہ کا کون سا دن ہے، کس رنگ کا جوڑا دینا چاہیے؟ کیسا کیک ہونا چاہیے؟ اور شاید ان کی بیوی کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ آج کا کوئی پیمانہ اس محبت، اُلفت کی اتھاہ گہرائیوں کو ناپنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ محبت جو بڑی خاموش ہوتی ہے، چھپی ہوئی، سادہ صرف گرم احساس لیے ہوئے۔

آپریشن تو ہوگیا اور پھیپھڑوں سے ٹیومر جتنا ممکن تھا نکال بھی دیا گیا، اور ساتھ ہی فیصلہ کیا گیا کہ انہیں اب کیموتھریپی کی ضرورت ہے۔ تین مختلف دواؤں کو مشترکہ طور پر دینا تھا۔ کم از کم سات دفعہ اور ہر دفعہ کی ڈوز کی قیمت تقریباً پینتیس ہزار روپے تھی سرکاری ہسپتال میں آپریشن تو تقریباً مفت میں ہوگیا مگر کیموتھریپی کے لیے حکومت کے پاس پیسے نہیں تھے۔ وہ مریض کو خود ہی دینا پڑتے ہیں یا پھر خیرات زکوٰۃ کے پیسوں سے ہی ممکن تھا۔

میں نے شازیہ سے کہا کہ زکوٰۃ کے فارم وغیرہ بھرلیں کیونکہ ان کے مالی حالات تو ایسے نہیں تھے کہ وہ خود یہ مہنگا علاج کرا سکتے۔ بیٹیاں شاید مل کر پیسے جمع کرلیں مگر یہ بھی ایک طرح سے بوجھ ہوگا اور پھر زکوٰۃ کے فنڈ میں رقم تو موجود ہی تھی۔ فارم کے بعد میں خود پیروی کروں گا اور دواؤں کا انتظام ہو جائے گا۔

دوسرے دن شازیہ نے بتایا کہ انہوں نے زکوٰۃ کے استحقاق کے فارم پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے اور ساتھ ہی بیٹیوں کو بھی منع کردیا ہے کہ کیموتھراپی کے لیے پیسے نہ جمع کریں۔

مجھے بڑی حیرت ہوئی تھی میرا خیال تھا کہ ماسٹر صاحب نے معاملے کو خوامخواہ پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ایک ان کے دستخط کے بعد بہت آسانی کے ساتھ ان کا علاج شروع ہوسکتا تھا مگر نہ جانے کیوں انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا۔ میں نے سوچا کہ میں خود ہی ان سے بات کرلیتا ہوں۔

اس دن وہ مجھے ذرا کمزور سے لگے تھے۔ آپریشن کے بعد ایسا لگتا ہے صائمہ نے کمرا بہت صاف ستھرا کیا ہوا تھا۔ صاف ستھرے دو تین تکیوں سے ٹیک لگا کر لیٹے ہوئے تھے۔ چہرا کمزور اور نڈھال تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی محسوس کی تھی میں نے۔ مجھ سے ہاتھ ملا کر آہستہ سے انہوں نے شکریہ ادا کیا تھا میرا۔

”شکریہ، ڈاکٹر صاحب، بہت خیال رکھا ہے آپ نے خدا خوش اور زندہ رکھے آپ کو کہ آپ علاج کرتے رہیں ہم جیسے لوگوں کا۔ زندگیاں بانٹتے رہیں اسی طرح، خوش رہو ہمیشہ خوش رہو بیٹے۔ “

” لیکن آپ علاج کرنے کہاں دے رہے ہیں۔ “ میں نے فوراً ہی جواب اس طرح سے دیا کہ گفتگو جلدی آگے بڑھ سکے۔ ”میرا مطلب ہے کہ آپ استحقاق کے فارم پہ دستخط کردیں کیونکہ استحقاق تو بنتا ہے آپ کا۔ اس کے بعد ہم لوگ دوا منگوا کر فوراً ہی علاج شروع کردیں گے۔ آج کل بہت اچھی دوائیں آئی ہوئی ہیں اور سارے کینسر کے مریضوں کا علاج ہورہا ہے۔ تھوڑا ری ایکشن ضرور ہوتا ہے۔ بال گرجاتے ہیں اُلٹی ہوتی ہے مگر زندگی مل جاتی ہے تھوڑی سی اور۔ بس اب آپ دستخط کردیں تاکہ میں دوائیں منگوا سکوں۔ “

وہ تھوڑی دیر مجھے دیکھتے رہے پھر آہستہ سے بولے : ”استحقاق تو بنتا ہے بیٹے، تم صحیح کہہ رہے ہو۔ غریب آدمی ہوں میں اتنا مہنگا علاج نہیں کراسکتا ہوں۔ علاج تو زکوٰۃ سے ہی ہوسکے گا۔ “ یہ کہہ کر وہ کچھ خاموش سے ہوگئے پھر آہستہ سے گلا کھنکار کے انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ مگر بیٹے یہ جن لوگوں نے زکوٰۃ نکالی ہے اپنی آمدنی، اپنے منافع سے انہوں نے کوئی فارم بھرا ہے کہ جس آمدنی اور نفع پر یہ زکوٰۃ نکالی گئی وہ آمدنی وہ نفع کسی لوٹ مار، اسمگلنگ، بے ایمانی، بلیک مارکیٹنگ، رشوت دھاندلی سے حاصل نہیں کی گئی ہے۔ کوئی فارم بھرا ہے انہوں نے زکوٰۃ دینے سے پہلے کہ کسی اور کے استحقاق کو پامال نہیں کیا ہے ان لوگوں نے؟ ”

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوئے اور پھر انہوں نے آہستہ آہستہ رُک رُک کے کہا : ”بغیر اس فارم کے یہ فارم تو بے معنی ہے ناں۔ “
میں صرف انہیں دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3