چیف جسٹس میاں ثاقب نثار: ”آپ کو تکلیف دی“ سے ”کون ہو تم“ تک


وقت سدا ایک سا نہیں رہتا یہ محاورہ سن تو کئی بار چکے ہیں اس کا عملی مظاہرہ گزشتہ تین سالہ عدالتی رپورٹنگ کے دوران دیکھنے کو ملا۔ ”فواد حسن فواد صاحب ہم نے آپ کو تکلیف دی“ سے ”کون ہو تم“ کا مختصر مگر دلچسپ عدالتی سفر!

جسٹس میاں ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان حلف اٹھانے کے بعد روز مرہ کے مقدمات کی سماعت شروع کی۔ ٹیکس قوانین میں مہارت رکھنے کے باعث ان کی عدالت میں زیادہ تر ٹیکسز سے متعلق مقدمات زیر سماعت بھی آیا کرتے تھے۔ جن میں ہم جیسے ٹی وی رپورٹرز کو کچھ خاص دلچسپی نہیں ہوا کرتی لہذا ہم جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس فائز عیسیٰ کے بینچز سے خبریں نکالنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے یا سابق حکومت کو سسیلین مافیا سے تشبیھ دینے والے جسٹس عظمت سعید شیخ بھی ہماری توجہ کا مرکز رہتے۔

مگر ایک دن غیر معیاری اسٹنٹس از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی فرنٹ فٹ پر آ کر کھیلنے کی ٹھانی اور اس وقت کے وزیراعظم اور آج کے ملزم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری کو طلب کر لیا۔ پرنسپل سیکرٹری کی آمد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم صحافی سپریم کورٹ کے داخلی دروازے پر کھڑے انتظار کر رہے تھے کہ تقریبا 11 بجے کے قریب فواد حسن فواد نے ججز گیٹ سے دھواں دھار انٹری ڈالی جو کہ ایک خلاف معمول بات تھی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے فواد حسن فواد کی جانب سے دی گئی وضاحت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ کیس کی کارروائی جونہی ختم ہونے لگی تو چیف جسٹس نے آج کل نیب کے زیر حراست فواد حسن فواد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا فواد صاحب ہم آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے ہمیں معلوم ہے آپ بہت مصروف آدمی ہیں۔ اب آئندہ آپ کو یہاں آنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اب آپ جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا تھا کہ کمرہ عدالت میں موجود صحافی بھی حیرت میں مبتلا ہو گئے۔

حیرت اس لیے کہ جس طرح غصے کے عالم میں پرنسپل سیکرٹری کو فی الفور طلب کیا گیا تھا اس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ آج تو خوب سرزنش ہو گی اور ہم کو بھی صحافتی اصطلاح میں کہا جائے تو پھٹے گھمانے کو چٹپٹے ریمارکس ملیں گے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ خیر اکثر صحافیوں نے چیف جسٹس کے اس اقدام کو خوب سراہا کہ ملک کو آگے لے کر جانے اور اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ایسے ہی مثبت رویے کی ضرورت ہے جس کا عملی مظاہرہ آج چیف جسٹس نے کیا۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا پاکستان میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے یہاں پر کچھ حتمی نہیں ہوا کرتا۔

اس واقعے کو لگ بھگ ایک سال گزرتا ہے اور عطاءالحق قاسمی کی بطور ایم ڈی پی ٹی وی تعیناتی کا مقدمہ سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں زیر سماعت آتا ہے۔ اس کیس میں سینیٹر پرویز رشید اور فواد حسن فواد کو بھی طلب کیا جاتا ہے۔ ابھی عدالتی کارروائی چل ہی رہی ہوتی ہے کہ فواد حسن فواد کا ذکر ہوتا ہے اور اچانک ہی کمرہ عدالت کا ماحول بھی بدل جاتا ہے۔ فواد حسن فواد بائیں دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی دائیں جانب کی ایک نشست پر براجمان ہوتے ہیں کہ چیف جسٹس انتہائی غصے میں ملک کے طاقتور ترین بیوروکریٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کھڑے ہو جاؤ کیا نام ہے تمہارا؟ جس پر فواد حسن فواد بھی چند لمحوں کے لیے سکتے سے کی حالت میں چلے جاتے ہیں اور جب ان کو یقین ہو چلا کہ چیف جسٹس کسی اور سے نہیں بلکہ ان سے مخاطب ہیں تو روسٹرم پر پہنچ کر اپنے مخصوص بیوروکریٹک انداز میں وضاحت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس روز چیف جسٹس کے چہرے کے تاثرات، ان کی باڈی لینگویج اور انداز گفتگو کو دیکھ کر فواد حسن فواد اور پرویز رشید تو حیران و پریشان تھے ہی ہم جیسے رپورٹرز بھی کچھ سمجھنے سے قاصر تھے۔ اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ چیف جسٹس نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو جانتے بوجھتے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا اور بلا توقف ان کو بھری عدالت میں جھاڑ پلا دی۔ فواد حسن فواد نے تجربہ کار بیوروکریٹ ہونے کا ثبوت دیا اور خاموشی سے سر تسلیم خم کر دیا جس پر چیف جسٹس بھی چند لمحوں کی مزید سماعت کے بعد حکم نامہ لکھوا کر آگے چل دیے۔

گزشتہ تین سالہ عدالتی رپورٹنگ کے دوران ایسے کئی واقعات رونماء ہوئے جن کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے لیکن مقصود کسی کی تضحیک کرنا یا کارکردگی پر انگلی اٹھانا قطعاً نہیں بلکہ موجودہ حالات کو تاریخی پس منظر کی روشنی میں پرکھنا ہے کیونکہ بطور ایک صحافی واقعات کا تقابلی یا پھر تنقیدی جائزہ لینا ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے لیکن تنقید برائے تنقید کے نام پر کسی کی پگڑی اچھالنا بھی ایک نامناسب فعل ہے۔ محترم چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حلف اٹھانے کے بعد کئی ایسے فیصلے دیے ہیں جو ریاست پاکستان کے لیے نا صرف سودمند ثابت ہوئے بلکہ ہمارے زنگ آلود سسٹم کو درست کرنے میں بھی مددگار ٹھہرے۔

جسٹس ثاقب نثار کے حلف اٹھانے کے دن ایک ٹی وی اینکر نے جب سینئیر وکیل اعتزاز احسن سے جج صاحب سے متعلق سوال کیا تو ان کا کہنا تھا جسٹس ثاقب نثار ایک بہترین قانون دان ہیں اور قانون پر ان کی پکڑ کافی مضبوط ہے۔ اعتزاز احسن جیسے سینئیر وکیل کی جانب سے چیف صاحب کے بارے میں ایسے الفاظ کسی سند سے کم نہیں ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2