شہید کالا چوزہ


\"adnanشاید دس سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا ہے لیکن شہید کالا چوزہ اب بھی یاد ہے۔ میرے بڑے بیٹے کو جانور پالنے کا بہت شوق ہے۔ اس وقت شاید وہ نرسری میں پڑھتا تھا جب اس کی خاطر چار رنگ برنگے چوزے خرید کر گھر لائے گئے۔ طوطے کا ایک پنجرہ خالی پڑا ہوا تھا۔ اس میں ان چوزوں کو ڈال کر ٹی وی لاﺅنج میں رکھا گیا۔ تین چوزے تو سیدھے سادے سے تھے، لیکن کالا چوزہ تو آفت کا پر کالا تھا۔ جب بھی دھیان پنجرے کی طرف سے ہٹتا تو وہ پنجرے سے باہر ٹہلتا ہوا پایا جاتا۔

پنجرے کی باریک تاروں کے بیچ سے وہ نہ جانے کیسے باہر نکل جاتا تھا۔ سو اپنی اس حیرت انگیز صلاحیت کی بنا پر اس نے کمانڈو کا خطاب پایا اور چاروں چوزوں میں سب سے چہیتا ٹھہرا۔ بیٹا اب منتظر رہتا کہ کب کمانڈو چوزہ سب کو جل دے کر پنجرے سے باہر نکل جائے گا۔ وہی کمانڈو اس کی دلچسپی کا مرکز تھا۔ باقی تین چوزے بس اب عام سے غبی سپاہی تھے اور ان کا سردار یہی کالا کمانڈو چوزہ تھا۔

پھر ایک دن ایسا ہوا کہ شام کو کچھ دیر کے لئے گھر سے باہر جانا ہوا۔ طوطے کے پنجرے کو باہر صحن میں موجود سٹور میں رکھ کر دروازہ بند کر دیا گیا۔ گھر واپس آئے تو سیدھے سٹور کا رخ کیا تاکہ چوزوں کی زیارت ہو۔ لیکن کمانڈو پنجرے میں نہیں تھا۔ سارا کمرا دیکھا، صحن دیکھا، لیکن کمانڈو کا سراغ نہ ملا۔ گمان ہوا کہ بلی نہ لے گئی ہو، لیکن پنجرہ دروازے سے چار پانچ فٹ اندر تھا، اور دروازے کے نیچے بمشکل ایک انچ کی درز تھی جہاں سے بلی کا پنجہ نکلنا ناممکن نظر آتا تھا۔ ایک جگہ صحن میں کالا سا رواں نظر آیا لیکن وہ اتنا تھوڑا تھا کہ چوزے کی باقیات نہیں ہو سکتی تھیں۔ خون کا ایک قطرہ بھی کہیں نہیں تھا۔

اس تلاش کے دوران صدمے سے دلبرداشتہ ہو کر بیٹے کی آنکھوں میں غم کے آنسو آ چکے تھے۔ آخر تلاش میں ناکامی پر یہی فیصلہ ہوا کہ یہ کالا رواں چوزے کی باقیات تھیں۔ شاید وہ بدنصیب پنجرے سے نکل کر دروازے سے بھی باہر نکل گیا تھا اور بلی کا شکار ہو گیا۔

\"12509317_1061574647198436_9161590740914698432_n\"بیٹا اب رونے لگا تھا، تو اب والدین کی ذمہ داری تھی کہ اسے صدمے سے بچایا جائے۔ سو ایک کہانی کار کا دماغ چلنے لگا۔ اس نے کہا \’اوہ، ان چوزوں پر اس خونخوار بلی نے حملہ کر دیا تھا۔ ہمارا بہادر کمانڈو چوزہ، باقی بزدل چوزوں کی جان بچانے کے لئے تن تنہا پنجرے سے باہر نکلا، اور اس خونخوار بلی کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔ اس نے دوسرے چوزوں کو بچانے کی خاطر اپنی جان قربان کر دی ہے۔ واقعی وہ ایک سچا اور بہادر کمانڈو تھا\’۔

یہ سنتے ہی بیٹے کے آنسو خشک ہونے لگے۔ اس کی آنکھوں میں چمک لوٹ آئی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اسے اپنے کالے کمانڈو چوزے پر فخر تھا جو کہ بے مثال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خونخوار بلی سے ٹکرا گیا تھا اور اس نے اپنے ساتھیوں کی حفاظت کی خاطر جان کی بھی پرواہ نہیں کی اور شہید ہو گیا۔ کمانڈو شہید کے باقی ماندہ کالے روئیں کو نہایت اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا اور اس کی ایک یادگار بنائی گئی۔ ہم والدین خوش تھے کہ چوزے کی جان جانے کی ذمہ داری کے غم سے بچے کو بچا لیا ہے۔

کبھی کبھی ہیرو تراش کر بھی ہم اپنے غم اور اپنی ذمہ داری سے بچ جاتے ہیں۔

کل چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوا اور بہت سے طالب علم شہید ہوئے۔ اس موقعے پر کمانڈو کالا چوزہ شہید بھی یاد آیا، اور آرمی پبلک سکول کی وہ ماں بھی یاد آئی جس نے پہلی برسی پر روتے ہوئے کہا تھا کہ شہید کیسا، میں نے اپنے بچے کو پڑھنے کے لئے سکول بھیجا تھا، لڑنے کے لئے محاذ جنگ پر نہیں بھیجا تھا۔

ہم غم کے اس کالے روئیں سے کتنے ہیرو اور تراشیں گے؟ کب ہم بلی کا کچھ بندوبست کریں گے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments