مہرباں کیسے کیسے؟


سیاسی حلقوں میں یہ بات کھلے عام کہی جا رہی ہے کہ عمران خان نے آرمی چیف کی تقرری پر جو چیخ و پکار شروع کر رکھی تھی، اس کا مقصد جنرل عاصم منیر، جن کا نام سنیارٹی لسٹ میں سب سے اوپر تھا، کو 27 نومبر 2022 ء کو ہی ریٹائر کروا کر کسی اور کے لئے گنجائش پیدا کرنا تھا۔ انہوں نے تو جنرل باجوہ کو آئندہ انتخابات تک آرمی چیف بنائے رکھنے کی تجویز پیش کر کے سرپرائز دیا تھا، اب وہی یہ کہہ رہے کہ انہوں نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دے کر غلطی کی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ جنرل باجوہ کے ایک قریبی رشتہ دار اور ریٹائرڈ جرنیل، جن کا نواز شریف سے جنرل باجوہ کی آرمی چیف کی حیثیت سے ”تقرری اور ایکسٹینشن“ تک مسلسل رابطہ رہا، نے جنرل باجوہ کو عام انتخابات کے انعقاد تک مزید ایکسٹینشن دلوانے کے لئے ایون فیلڈ کے مکین (نواز شریف ) کے ہاں ”ڈیرے“ ڈال رکھے تھے لیکن نواز شریف، جو 2017 میں ایک آرمی چیف کو ایکسٹینشن نہ دینے کے ”جرم“ کی پاداش میں اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اصولی طور پر ایکسٹینشن کے خلاف ہیں، جنرل باجوہ کی مدت ملازمت مزید ایک سال بڑھانے پر آمادہ نہ ہوئے لہٰذاوہ شخصیت لندن سے بے نیل و مرام واپس آئی۔

جب دباؤ بڑھا تو نواز شریف اپنی فیملی کو لے کر یورپ کے دورے پر چلے گئے، شہباز شریف ”کورونا“ کی وجہ سے کچھ دنوں گوشہ نشین ہو گئے لہٰذا مزید ایکسٹینشن کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ یہ نواز شریف ہی تھے جنہوں نے سنیارٹی لسٹ پر کوئی کمپرومائز نہ کرنے کا دوٹوک پیغام دیا تھا اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اس کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی حکومت جاتی ہے تو بے شک چلی جائے لیکن سنیارٹی لسٹ میں کوئی ردو بدل کیے بغیر سینئر ترین جرنیل کو ہی پاکستان کا سپہ سالار بنایا جائے۔

نواز شریف کی ہارڈ لائن کی وجہ سے سنیارٹی لسٹ تبدیل کی جا سکی اور نہ ہی جنرل باجوہ کی خواہش کو پذیرائی ملی۔ پی ٹی آئی نے 29 نومبر 2022 ء کو یوم نجات قرار دیا لیکن جب تک جنرل باجوہ کے ہاتھ میں آرمی کمان کی علامت سمجھی جانے والی چھڑی رہی، پی ٹی آئی کے کسی ”سورما“ نے ان کے خلاف کوئی بات کرنے کی جرات نہ کی۔ اگرچہ جنرل باجوہ کے آرمی چیف بننے سے قبل ہی ٹی وی چینلوں پر عدالتیں لگانے والے کاسہ لیس اینکر پرسنز کی آرمی ہاؤس تک رسائی تھی لیکن جنرل باجوہ کے دور میں ان کی آرمی ہاؤس آمد و رفت بڑھ گئی جس کا وہ اپنے پروگراموں میں فخریہ ذکر کیا کرتے تھے، اس سے جہاں میڈیا کلچر خراب ہوا وہاں حقیقی معنوں میں صحافی پس منظر میں چلے گئے ملک میں صحافت کے نام پر ایک ایسی مخلوق نے جنم لے لیا جس نے گویا ملک میں حکومتیں گرانے اور بنانے کا ”ٹھیکہ“ اپنے سر لے رکھا ہے۔

نئے سپہ سالار کو اس مخلوق کے لئے جی ایچ کیو کا گیٹ نمر 4 بند کرنا پڑے گا
دادا دو تحسین کے ڈونگرے برسانے والے ان خوشامدیوں سے نجات حاصل کرنا پڑے گی، صحافت کا لبادہ اوڑھ کر آنے والے کاسہ لیسوں سے مشاورت کی چنداں ضرورت نہیں یہی لوگ حکمرانوں اور آرمی چیفس کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں، یہ آرمی چیف کے نام کے ایسے مطالب نکال لاتے ہیں جن کی پہلے ان کو بھی خبر نہیں ہوتی، پاکستان کے عوام اپنی فوج سے محبت نہیں بلکہ عشق کرتے ہیں، جب کہیں اس کا سیاسی کر دار نظر آتا ہے تو ان کی محبت منقسم ہو کر رہ جاتی ہے۔

جنرل باجوہ نے جب عمران خان کے سر پر سے دست شفقت اٹھایا تو پوری پی ٹی آئی ایسی ناراض ہوئی کہ ”الامان و الحفیظ“ ۔ جنرل باجوہ کا 6 سالہ دور پاکستان کی عسکری تاریخ میں کوئی آئیڈیل تو نہیں لیکن ان کے دور میں امریکہ افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوا لیکن ”باجوہ ڈاکٹرائن“ بری طرح ناکام ہوا، عمران خان نے برملا اس کا اعتراف کیا ہے کہ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینا ان کی غلطی تھی۔ جنرل با جوہ جب فوج کے سربراہ تھے تو انہیں جرات نہ ہوئی کہ ان کا نام لے کر تنقید کرتے۔

یہ مونس الٰہی ہی ہیں جنہوں نے میان سے تلوار نکالی اور جنرل باجوہ کا دفاع کرنے نکل آئے وہاں اگلے روز ان کے والد محترم چوہدری پرویز الٰہی نے عمران خان کی ناراضی کی پروا کیے بغیر نہ صرف مونس الٰہی کی گفتگو کی تصدیق کی بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ ”مسلم لیگ (ن) کی طرف جاتے جاتے اللہ تعالیٰ نے ہمارا راستہ بدل دیا اور راستہ دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنرل باجوہ کو بھیج دیا، مجھے جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ“ آپ کا اور آپ کے دوستوں کا عمران خان والا راستہ زیادہ بہتر ہے ”۔

انہوں نے کہا“ عمران خان کو میر صادق، میر جعفر نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ”سر دست عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی کے بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ تاہم ان ہی کی پارٹی کے اعجاز چوہدری نے چوہدری پرویز الٰہی کے بیان کو پی ٹی آئی کے خلاف بیان قرار دیا ہے، چوہدری پرویز الٰہی نے معنی خیز گفتگو کی ہے کہ“ اب میز پر بٹھا کر بات کرانے والے آ گئے ہیں جو نیا سیٹ اپ ہے یہ خود کو ماضی سے دور رکھے گا۔ ”چوہدری پرویز الٰہی عمران خان پر فریفتہ نظر آتے ہیں، انہوں نے کہا کہ خان صاحب نے حملے اور بیماری کے باوجود شریفوں کے لئے ایک خوف پیدا کر دیا، ہم سوچتے تھے یا اللہ کوئی ایسا بندہ لا جو ان شریفوں کو“ نتھ ”ڈال دے۔

مجھے تو لگتا ہے کہ عمران خان نے ہی ان کو سزا دینی ہے۔ شنید ہے عمران خان قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کی پیشگی شرط پر وفاقی حکومت کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیا رہیں لیکن مریم اورنگ زیب نے تو انہیں اکتوبر 2023 ء کی تاریخ دے دی ہے۔ عمران خان نے بھی پنجاب اور کے پی کے اسمبلی کی تحلیل کے لئے 20 دسمبر 2022 ء تک حکومتی فیصلے کا انتظار کرنے کا عندیہ دیا ہے، عمران خان کا ٹریک ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ وہ“ یو ٹرن ”لینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے فی الحال پوری پی ٹی آئی“ باجوہ ڈاکٹرائن ”اور“ پروجیکٹ عمران ”کے المناک انجام کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

امتیاز عالم

بشکریہ: روزنامہ جنگ

imtiaz-alam has 58 posts and counting.See all posts by imtiaz-alam

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments