جب فہمیدہ ریاض کی ”آواز“ پر چھاپہ پڑا


فہمیدہ ریاض سے میرا پہلا تعلق تو وہ ہے جو ہر نسل کا اپنے پیش روؤں کے ساتھ ہوتا ہے اور میری یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ میں نے ان کے ساتھ ان کے رسالہ ”آواز“ میں کچھ عرصہ ان کی معاونت کی۔ یوں انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ ضیا الحق کے مارشل لا کا وہی پر آشوب دورتھا جب رسالہ ”آواز“ پر مقدمات قائم کیے گئے جس کے نتیجے میں فہمیدہ ریاض کو جلا وطن ہونا پڑا۔

وہ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا اور یہ میری پارٹ ٹائم جاب تھی۔ شاید تنخواہ تین سو روپے ماہانہ طے ہوئی تھی۔ آواز کے دفتر میں ہفتے میں دو دن جاتی تھی لیکن ان دو دنوں کا مجھے بے چینی سے انتظار رہتا تھا۔ کارساز سے طارق روڈ کو مڑتے ہوئے غالباً دوسرا بس اسٹاپ رحمانیہ مسجد کا پڑتا تھا۔ بھری دوپہر میں طارق روڈ کے رحمانیہ مسجد والے بس اسٹاپ پر اتر کر پیدل ان کے گھر تک جاتے ہوئے میں پسینے میں شرابور ہوجاتی تھی۔

مجھے اونچی ایڑی کی چپل کی عادت تھی۔ شروع شروع میں تو حسب عادت پینسل ہیل پہن کر ہی وہاں تک جاتی تھی۔ لیکن بس اسٹاپ سے فہمیدہ ریاض کا گھر جو ان دنوں رسالہ ”آواز“ کا عارضی دفتر بھی تھا سیدھی سڑک پرکافی اندر تھا۔ آخر انگلش بوٹ ہاؤس کی نازک سینڈل کب تک ساتھ دیتی۔ پھر اسی کونے پر بیٹھے ہوئے موچی نے مشکل آسان کردی۔ دوسرے تیسرے وہ چار آٹھ آنے میں ایک دو ہتھوڑیا مار کر نئی کیلیں جما دیتا اور پرانی مضبوط کر دیتا۔ آخر ایک دن مجھے عقل آ گئی اور پھر میں نے بس اسٹاپ سے ان کے گھر تک کا راستہ اپنی سینڈل ہاتھ میں لے کر طے کرنا شروع کردیاکہ آخرپاؤں تو اپنے تھے۔

میں دوپہر کی تیز دھوپ میں کوٹھی کی گول گول سیڑھیاں طے کرکے بالکنی سے ہوتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوتی تو فہمیدہ کے بیٹے کبیر کی آیا بی بی جان اپنے کام میں مصروف نظر آتی اور اس کے دونوں بیٹے چادر کی دوسری طرف کونے میں کھیل رہے ہوتے۔ وہ کبھی کبیر کو چٹائی پر لٹا کر اس کے بدن پر سرسوں کے تیل کی مالش کر رہی ہوتی تو کبھی اس کے لئے افغانی حلوہ بنا رہی ہوتی جو بنتا تو کبیر کے لئے ہی تھا مگر اس میں سب کا حصہ ہوتا تھا۔ وہ حلوہ ذائقے میں اتنا مختلف تھا کہ میں نے نہ صرف یہ کہ اس کی ترکیب لکھی بلکہ اس کے ساتھ اس چھوٹے سے باورچی خانے میں بیٹھ کر حلوہ بنانا بھی سیکھا۔

یہ پرانے طرز کی ایک چھوٹی سی کوٹھی کا غالباً آدھا پورشن تھا جس کی بالائی منزل کے اس حصے میں دو کمرے اور ایک بڑا سا ہال وے یا ڈرائنگ روم تھا۔ اس ڈرائنگ روم سے ملحق پہلا کمرہ آواز کا دفتر اور لائبریری تھی۔ اور دوسرا کمرہ فہمیدہ کا بیڈ روم تھا۔ آواز کے دفتر کا کل اثاثہ ایک رائیٹنگ ٹیبل، دوکرسیاں اورغالباً ایک پرانا سا موڑھا تھا۔ دیوار میں نصب وہ خوبصورت الماریاں جو اس کوٹھی میں نوادرات کی نمائش کے لئے بنائی گئی ہوں گی ان الماریوں میں اب صر ف کتابیں تھیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں فہمیدہ کے ڈرائنگ روم میں فرنیچر قسم کی کوئی شے نہیں تھی۔

بلکہ وہ حصہ بی بی جان کی ملکیت تھا۔ جہاں اس نے بہت ہی بے تکے پن سے ایک پلنگ پوش پردے کے طور پر لٹکا رکھا تھا۔ دوسرے الفاظ میں اس نے ڈرائنگ روم میں جھگی ڈال رکھی تھی جہاں ایک کونے میں اس کے لحاف گدے، دوسری طرف اس کا لوہے کا ٹرنک اور زمین پر چٹائی یا دری بچھی رہتی تھی۔ وہ حصہ بلا شرکتِ غیرے اس کے تقریباً آٹھ اور دس برس کے دونوں لڑکوں سمیت اس کی ملکیت تھا اور اس ننھی سی ملکیت کا شہزادہ گول مٹول، کھلکھلاتا ہوا کبیر۔

آواز کا دفتر یعنی وہ کمرہ جو میرے استعمال میں تھا اس کا دروازہ ”بی بی جان کی جھگی“ یعنی ڈرائنگ روم میں کھلتا تھا۔ میں کام کرتے کرتے نظر اٹھاتی تو وہ سامنے مسکراتی نظر آتی۔ اب سوچتی ہوں شہر کراچی کی پرانی بستیاں بھی عجیب تھیں اور ان عجیب بستیوں میں عجیب ترین تھا یہ گھر۔ اس پر آسائش بستی کی تہذیبی فضا سے بالکل الگ ایک جزیرہ، فہمیدہ ریاض کا گھر جس کے ڈرائنگ روم میں ایک بیوہ عورت نے اپنے دو کم سن بچوں کے ساتھ پناہ لے رکھی تھی اور تیسرا وہ لاڈلا تھا کبیر جو اس کے رزق کا وسیلہ تھا۔ آواز کے دفتر کے ان چند اراکین کے علاوہ جن کا میں نے اوپر ذکر کیا وہاں میں نے کبھی کسی اور کو آتے جاتے نہیں دیکھا یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ جن معاونین کا نام رسالے میں درج ہوتا تھا ان سے میری ملاقات اس دفتر میں کبھی نہیں ہوئی۔ (یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ آواز کا اصل دفتر صدر میں کہیں تھا)۔

بی بی جان کی کہانی بھی عجیب تھی۔ اس کا شوہر کسی محاذ پر کام آیا تھا۔ اس کے سسرال والے قبیلے کے دستور کے مطابق اس کے بیٹوں کو اپنی سرپرستی میں لے کر( یا دوسرے معنی میں ان کو چھین کر) بی بی جان کو کسی اور کے ہاتھ فروخت کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے لیکن وہ بچ نکلی۔ اور اب اپنے بچوں کے ساتھ یہاں کبیر کی خدمت کے صلے میں سر اٹھا کر جی رہی تھی۔ وہ سرخ سفید، مضبوط ہاتھ پاؤں کی خوبصورت اور سخت کوش پٹھان عورت تھی۔

اس گھر کے عین سامنے والا گھر فہمیدہ کی والدہ کا یا ان کی چھوٹی بہن نجمہ کا تھا۔ جہاں ان کی والدہ بھی رہتی تھیں۔ مجھے کبھی قلم یا کاغذ کی ضرورت ہوتی تواکثر بھاگتی ہوئی نجمہ کے گھر چلی جاتی، سامنے ان کی امی بیٹھی ہوئی ہوتیں۔ میں نے پہلی بار انہیں دیکھا تو کچھ دیر مبہوت کھڑی رہ گئی۔ یا اللہ کیا حسینوں کا خاندان ہے۔ پھر نجمہ برآمد ہوئیں، ایک ہی گھر میں اتنا سارا حسن۔ میں بھول گئی کہ کیا لینے آئی تھی!

میں ہفتے میں دو مرتبہ ”آواز“ کے دفتر جاتی تھی۔ کبھی جب پرچہ پریس میں جانا ہوتا تو اور بھی وقت دینا پڑتا لیکن معمول یہی تھا کہ کالج سے نکل کر کارساز کے لئے بس پکڑتی اور پھر طارق روڈ کے لئے۔ ایک دن جب میں گلی میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ ویرتا اور کبیر دو نوں بچے گھر کے سامنے ننگے پاؤں کھڑے ہیں۔ کبیر کے ہاتھ میں بی بی جان کا پانی کا کٹورہ تھا۔ اور ویرتا کے ہاتھ میں ایک تھیلا سا۔ کبیر اس وقت دو ڈھائی برس کا تھا اور ویرتا چار ایک برس کی رہی ہوگی۔ میں قریب آئی کہ یہ سڑک پر کیا کررہے ہیں تو کبیر نے کٹورا آگے بڑھایا اور کہا ”دے دے“۔ ا سے اتنا ہی بولنا آتا تھا۔ میں نے لپک کر اسے گود میں اٹھالیا تو دروازے سے مجھے بی بی جان کا سرخ چہرہ نظر آیا۔ وہ ہانپتی ہوئی باہر آئی اور چیل کی طرح جھپٹا مار کر کبیر کومیری گود سے اڑا لے گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3