اقبال: ایک باپ کی حیثیت سے


ایک مرتبہ گرمیوں کے موسم میں ابا جان نے کشمیر جانے کا ارادہ بھی کیا کیونکہ ان کے احباب کا اصرار تھا کہ وہ تبدیلی آب و ہوا کی خاطر لاہور سے تھوڑے عرصے کے لیے کہیں باہر چلے جائیں۔  انھوں نے منیرہ اور مجھ سے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ ہم بڑے خوش تھے کہ ابا جان کے ہمراہ کشمیر جا رہے ہیں۔  لیکن کشمیر میں ابا جان کا داخلہ ممنوع تھا لہٰذا انھوں نے حکومت سے اجازت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ عرصے تک خط و کتابت جاری رہی۔ مگر جب اجازت ملی تو گرمیوں کا موسم نکل چکا تھا۔ یوں وہ اپنی زندگی میں آخری بار وادی کشمیر میں کچھ دن گزارنے سے محروم رہ گئے۔  اسی طرح بیت اللہ کے حج پر جانے کا قصد بھی کیا، لیکن وہ بھی پورا نہ ہو سکا۔

ابا جان کو معلوم تھا کہ مجھے بڑی بڑی شخصیتوں کے آٹو گراف لینے کا شوق ہے۔  گو وہ میری اس عادت کو نہ تو برا سمجھتے اور نہ سراہتے، لیکن ایک شام انھوں نے مجھے خاص طور پر بلوا کر کہا کہ ہمارے یہاں ایک مہمان آرہے ہیں، جب وہ آ کر بیٹھ جائیں تھوڑی دیر بعد میں کمرہ میں داخل ہوں اور ان سے آٹو گراف دینے کی استدعا کروں۔  چنانچہ جب مہمان تشریف لے آئے تو میں ان کے حکم کے مطابق کمرے میں داخل ہوا۔ ابا جان کے پاس ایک دبلے پتلے مگر نہایت خوش پوش شخص بیٹھے تھے۔

ان کی نگاہوں میں عقاب جیسی پھرتی تھی۔ اور ان کے ساتھ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک دبلی پتلی خاتون بھی تھیں۔  ابا جان نے ان سے میرا تعارف کرایا اور میں نے آٹو گراف کی کتاب آگے بڑھا دی۔ مہمان نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا ”کیا تم بھی شعر کہتے ہو؟ “ میں نے کہا ”جی نہیں! “ اس پر انھوں نے سوال کیا ”پھر تم بڑے ہو کر کیا کرو گے؟ “ میں خاموش رہا۔ وہ ہنستے ہوئے، ابا جان سے مخاطب ہوئے ”کوئی جواب نہیں دیتا! “ ”یہ جواب نہیں دے گا۔“ ابا جان بولے۔  ”کیونکہ یہ اس دن کا منتظر ہے جب آپ اسے بتائیں گے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ “ میری آٹو گراف کی کتاب پر دستخط کر دیے گئے۔

یہ میری خالق پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح سے پہلی ملاقات تھی تب قائد اعظم کو پنجاب میں زیادہ لوگ نہ جانتے تھے اور مسلم عوام پاکستان کے تصور سے ابھی روشناس نہ ہوئے تھے۔  بہرحال، میں نے اس مختصر سے عرصے میں یہ اندازہ لگا لیا کہ ابا جان اُن کی کس قدر عزت کرتے ہیں۔

آخری ایام میں ابا جان کی نظر بہت کمزور ہو گئی تھی اس لیے مجھے حکم تھا کہ انھیں ہر روز صبح اخبار پڑھ کر سنایا کروں۔  اگر کسی لفظ کا تلفظ غلط ادا کر جاتا تو بہت خفا ہوتے۔  اسی طرح رات کو میں انھی کی کوئی غزل گا کر بھی سنایا کرتا۔ ان دنوں مجھے ان کی صرف ایک غزل یاد تھی

گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر!

ابا جان کے سامنے وہ غزل پڑھنا میرے لیے ایک عذاب ہوا کرتا۔ اگر کوئی شعر غلط پڑھ جاتا تو وہ ناراض ہوتے اور کہتے ”شعر پڑھ رہے ہو یا نثر؟ “ ان کی وفات سے کوئی دو ایک ماہ پیشتر ایک شام پنڈت نہرو کو ان سے ملنے کے لیے آنا تھا۔ ابا جان نے مجھے بلا کر حکم دیا کہ پنڈت نہرو کے استقبال کے لیے ڈیوڑھی میں کھڑا رہوں۔  میں نے تعجب سے پوچھا پنڈت نہرو کون ہیں؟ کہنے لگے ”جس طرح محمد علی جناح مسلمانوں کے قائد ہیں، اسی طرح پنڈت نہرو ہندوؤں کے سربراہ ہیں۔“

میں باہر کھڑا پنڈت جی کا انتظار کرتا رہا۔ جب وہ تشریف لائے تو میں نے انھیں ”السلام علیکم“ کہا اور انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کا جواب دیا، میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر نہایت شفقت سے میری کمر میں بازو ڈال کر ابا جان کے کمرے میں داخل ہوئے۔  ابا جان ان سے بڑے تپاک سے ملے اور صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔ لیکن پنڈت جی نے نیچے فرش پر بیٹھنے پر اصرار کیا۔ بالآخر وہ فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھ گئے، اور ابا جان بستر پر لیٹے ان سے باتیں کرنے لگے۔

ابا جان سے لوگ گھر پر ہی ملنے آتے۔  ہر شام احباب کی محفل جما کرتی۔ ان کی چارپائی کے گرد بہت سی کرسیاں رکھی ہوتیں اور لوگ ان پر آ کر بیٹھ جایا کرتے۔  آپ چارپائی پر لیٹے، ان سے باتیں کرتے رہتے اور ساتھ ساتھ حقہ بھی پیتے جاتے۔  رات کا کھانا نہ کھاتے تھے، صرف کشمیری چائے پینے پر اکتفا کرتے۔  رات گئے تک علی بخش ان کے پاؤں دباتا اور اگر میں کبھی دبانے بیٹھتا تو منع کر دیتے اور کہتے ”تم ابھی چھوٹے ہو، تھک جاؤ گے۔“

مجھے خاص طور پر حکم تھا کہ جب بھی ان کے پاس لوگ بیٹھے ہوں اور کوئی بحث مباحثہ ہو رہا ہو تو میں وہاں ضرور موجود رہوں۔  لیکن مجھے ان کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہ ہوا کرتی کیونکہ وہ میری سمجھ سے بالاتر ہوتیں۔  سو، میں عموماً موقع پا کر وہاں سے کھسک جایا کرتا جس پر انھیں بہت رنج ہوتا اور وہ اپنے احباب سے کہتے ”یہ لڑکا نہ جانے کیوں میرے پاس بیٹھنے سے گریز کرتا ہے۔ “ دراصل اب وہ تنہائی بھی محسوس کرنے لگے تھے اور اکثر اوقات افسردگی سے کہا کرتے ”سارا دن یہاں مسافروں کی طرح پڑا رہتا ہوں، میرے پاس آ کر کوئی نہیں بیٹھتا!“

آخری رات ان کی چارپائی گول کمرے میں بچھی تھی۔ عقیدت مندوں کا جمگھٹا تھا۔ میں کوئی نو بجے کے قریب اس کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے۔  پوچھا کون ہے؟  ”میں نے جواب دیا“ میں جاوید ہوں۔  ”ہنس پڑے اور بولے“ جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں!  ”پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چودھری محمد حسین سے مخاطب ہوئے“ چودھری صاحب! اسے جاوید نامہ کے آخیر میں وہ دعا ”خطاب بہ جاوید“ ضرور پڑھوا دیجیے گا۔  ”اس رات ہمارے ہاں بہت سے ڈاکٹر آئے ہوئے تھے۔  ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا کیونکہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ آج کی رات مشکل سے کٹے گی۔

کوٹھی کے صحن میں کئی جگہوں پر، دو دو تین تین کی ٹولیوں میں، لوگ کھڑے باہم سرگوشیاں کر رہے تھے۔  ابا جان سے ڈاکٹروں کی یہ رائے مخفی رکھی گئی۔ مگر وہ بڑے تیز فہم تھے۔  انھیں اپنے احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر یقین ہو گیا تھا کہ بساط عنقریب الٹنے والی ہے۔  اس کے باوجود وہ اس رات معمول سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔  مجھے بھی حالات سے آگاہ نہ کیا گیا اس لیے میں معمول کے مطابق اپنے کمرے میں جا کر سو رہا۔ مگر صبح طلوع آفتاب سے پیشتر مجھے علی بخش نے آ کر جھنجھوڑا اور چیختے ہوئے کہا: ”جاؤ دیکھو! تمہارے ابا جان کو کیا ہو گیا ہے۔“

نیند اچانک میری آنکھوں سے کافور ہو گئی۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ گھر کے مختلف حصوں سے کراہنے اور سسکیاں بھرنے کی بھنچی ہوئی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔  میں اپنے بستر سے اس خیال سے نکلا کہ جا کر دیکھوں تو سہی کہ انھیں کیا ہو گیا ہے۔  جب میں اپنے کمرے سے گزرتا ہوا ملحقہ کمرے میں پہنچا تو منیرہ تخت پر اکیلی بیٹھی، اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپائے رو رہی تھی۔ مجھے ابا جان کے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھ کر وہ میری طرف لپکی اور میرے بازو سے چمٹ گئی۔ اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہ میرے ساتھ چل رہی تھی۔ ہم دونوں ان کے کمرے کے دروازے تک پہنچ کر رک سے گئے۔

میں نے دہلیز پر کھڑے کھڑے اندر جھانکا۔ ان کے کمرے میں کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہ چارپائی پر سیدھے لیٹے تھے۔  انھیں گردن تک سفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی۔ ابا جان کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ قبلے کی طرف تھا، مونچھوں کے بال سفید ہو چکے تھے، اور سر کے بالوں کے کناروں پر میرے کہنے سے آخری بار لگائے ہوئے خضاب کی ہلکی سی سیاہی موجود تھی۔ منیرہ کی ٹانگیں دہشت سے کانپ رہی تھیں۔

اس نے میرے بازو کو بہت زور سے پکڑ رکھا تھا اور مجھے اس کی سسکیوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ مگر میں کوشش کے باوجود بھی نہ رو سکتا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ اگر میں رو دیا تو وہ ابھی اٹھ کھڑے ہوں گے، اپنی انگلی کے اشارے سے ہم سے قریب آنے کو کہیں گے۔  اور جب ہم ان کے قریب پہنچ جائیں گے تو وہ اپنے ایک پہلو میں مجھے اور دوسرے میں منیرہ کو بٹھا لیں گے، پھر اپنے دونوں ہاتھ پیار سے ہمارے کندھوں پر رکھ کر قدرے کرختگی سے مجھ سے کہیں گے ”تمہیں یوں نہ رونا چاہیے۔  یاد رکھو تم مرد ہو، اور مرد کبھی نہیں رویا کرتے! “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6