اقبال: ایک باپ کی حیثیت سے


میں نے سن رکھا ہے کہ میری پیدائش سے چند سال قبل ابا جان شیخ احمدؒ سرہندی مجدد الف ثانی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایک بیٹا عطا کرے۔  آپ نے حضرت مجدد ؒسے یہ عہد بھی کیا کہ اگر خداوند تعالیٰ نے انھیں بیٹا دیا تو اسے ساتھ لے کر مزار پر حاضر ہوں گے۔  آپ کی دعا پوری ہوئی اور کچھ عرصے بعد جب میں نے ہوش سنبھالا تو مجھے اپنے ہمراہ لے کر دوبارہ سرہند شریف پہنچے۔  اس سفر کے دھندلے سے تصورات میری نگاہوں کے سامنے ابھرتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ ان کی انگلی پکڑے مزار میں داخل ہو رہا ہوں۔

گنبد کے تیرہ و تار مگر پُر وقار ماحول نے مجھ پر ایک ہیبت سی طاری کر رکھی ہے۔  پھٹی پھٹی آنکھوں سے میں اپنے چاروں طرف گھور رہا ہوں جیسے میں اس مقام کی خاموش فضا سے کچھ کچھ شناسا ہُوں۔  ابا جان نے مجھے اپنے قریب بٹھا لیا۔ پھر انھوں نے قرآن مجید کا پارہ منگوایا اور دیر تک پڑھتے رہے۔  اس وقت صرف ہم دو ہی تربت کے قریب بیٹھے تھے۔  گنبد کی خاموش اور تاریک فضا میں ان کی آواز کی گونج ایک ہولناک ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو امڈ کر رخساروں پر ڈھلک آئے ہیں۔  ایک روز وہاں ٹھہرنے کے بعد ہم گھر واپس آ گئے، لیکن مجھ پر اس راز کا انکشاف نہ ہُوا کہ آخر اس مزار پر جانے کا مقصد کیا تھا اور وہ آنسو کس لیے تھے۔

مجھے یاد ہے، میں بچپن میں اکثر یہی سوچا کرتا۔ اپنی زندگی میں ابا جان نے مجھے شاذ ہی کوئی ایسا موقع دیا ہو گا جس سے میں ان کی شفقت یا اس الفت کا اندازہ لگا سکتا جو انھیں میری ذات سے تھی۔ والدین بچوں کو اکثر پیار سے بھینچا کرتے ہیں، انھیں گلے سے لگاتے ہیں، انھیں چومتے ہیں، مگر مجھے آپ کے خدوخال سے کبھی اس قسم کی شفقت پدری کا احساس نہ ہوا۔ بظاہر وہ کم گو اور سرد مہر سے دکھائی دیتے تھے۔  مجھے کبھی گھر میں منہ اٹھائے اِدھر اُدھر بھاگتے دیکھ کر مسکراتے تو مربیانہ انداز سے۔  گویا کوئی انھیں مجبوراً مسکرانے کو کہہ رہا ہو۔ اور اکثر اوقات تو میں انھیں اپنی آرام کرسی یا چارپائی پر آنکھیں بندکیے اپنے خیالات میں مستغرق پاتا۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ انھیں مجھ سے محبت نہ تھی، سراسر غلط ہے۔  ان کی محبت کے اظہار میں ایک اپنی طرز کی خاموش تھی جس میں عنفوانِ شبا ب کے وقتی ہیجان کا فقدان تھا یا اس کی نوعیت فکری یا تخیلی تھی جس تک پہنچنے کی اہلیت میرا ذہن نارسا نہ رکھتا تھا۔ بہر حال، جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے۔  میں ان سے محبت تھوڑی کرتا تھا اور خوف زیادہ کھاتا تھا۔ ہر گھر میں چھوٹی موٹی باتیں ہوا کرتی ہیں، مگر ان سے گھر کے افراد کے کردار پر روشنی پڑتی ہے۔  بعض اوقات والدین میں اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں تنازع بھی ہو جایا کرتا ہے۔  اسی طرح ابا جان اور اماں جان میں میری وجہ سے کئی بار تکرار ہو جاتی۔

مثلاً اماں جان کو میرے متعلق ہر گھڑی یہی فکر دامن گیر رہتا کہ جب کبھی میں اکیلا کھانا کھاؤں، پیٹ بھر کر نہیں کھاتا، اس لیے وہ ہمیشہ مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا کرتیں یہاں تک کہ میں آٹھ نو برس کا ہو گیا۔ لیکن پھر بھی مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا کھانے کی عادت نہ پڑی ابا جان اس بات پر بار بار ناراض ہوئے کہ تم اسے بگاڑ رہی ہو، اگر یہ جوان ہو کر بھی خود کھانا نہ کھا سکا تو کیا ہو گا۔ ہم لوگ رات کو اکثر خشکہ کھایا کرتے تھے۔

لہٰذا اب یوں ہوتا کہ بطور احتیاط چمچہ میری پلیٹ کے قریب رکھ دیا جاتا، مگر کھانا اماں جان ہی کھلاتیں۔  ابا جان کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ دبے پاؤں زنانے میں آیا کرتے، اس طرح کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پاتی۔ بہرحال، جب بھی اماں جان مجھے کھلا رہی ہوتیں، ان کا دھیان باہر ہی رہتا اور جونہی وہ ابا جان کے قدموں کی ہلکی سی آہٹ سنتیں تو اپنا ہاتھ پھرتی سے علیحدہ کر کے چمچہ میرے آگے رکھ دیتیں اور میں خود کھانا کھانے میں مشغول ہو جاتا۔ مجھے یقین ہے کہ ابا جان کئی مرتبہ اس کا سراغ لگا چکے تھے، لیکن وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے بعد چلے جایا کرتے۔

میں بچپن میں بے حد شریر تھا، پڑھائی سے بھی کوئی خاص دلچسپی نہ تھی، اس لیے اماں جان سے مار کھانا میرا معمول بن چکا تھا۔ اماں جان بچوں کی پرورش کے سلسلے میں ایک ایسے اصول کی پابند تھیں جو نہایت سخت تھا۔ وہ اکثر کہا کرتیں کہ اولاد کو کھانے کو دو سونے کا نوالہ، لیکن دیکھو قہر کی نظر سے۔  اسی اصول کے پیش نظر، گو میں ان کے ہاں بارہ برس کے شدید انتظار کے پیدا ہوا، مجھے یاد نہیں کہ انھوں نے مجھ پر کبھی ایسی شفقت یا محبت کا اظہار کیا ہو جس کی توقع بچے اپنی ماؤں سے رکھتے ہیں۔

البتہ میں نے اتنا سن رکھا ہے کہ وہ جب کبھی بھی مجھے پیار کرتیں، میری نیند کے عالم میں کرتیں تاکہ مجھے علم نہ ہو سکے۔  شاید اسی لیے بچپن میں میرے ذہن میں یہ خیال بھی گزرا کرتا کہ میری ماں دراصل میری حقیقی ماں نہیں بلکہ سوتیلی ماں ہے۔  بہر حال، ابا جان سے میں نے بہت کم مار کھائی ہے۔  میرے لیے ان کی جھڑک ہی کافی ہوا کرتی۔

گرمیوں میں دوپہر کے وقت دھوپ میں ننگے پاؤں پھرنے پر مجھے کئی بار کوسا گیا۔ ابا جان جب کبھی بہت برہم ہوتے تو ان کے مُنہ سے ہمیشہ یہی الفاظ نکلتے ”احمق آدمی! بیوقوف! “ مجھے یہاں ابا جان سے مار کھانے کا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے۔  بچپن میں مجھے روز ایک آنہ خرچ کرنے کو ملا کرتا اور اسے خرچ کر چکنے کے بعد خواہ میں اماں جان کی کتنی ہی منتیں کرتا، مجھے مزید کچھ نہ ملتا بلکہ ہر لمحہ ان کے ناراض ہونے کا احتمال رہتا۔

ایک دفعہ اتفاق یوں ہوا کہ کوئی مٹھائی بیچنے والا ہمارے گھر کے سامنے سے گزرا۔ مٹھائی دیکھ کر میں للچا گیا۔ لیکن جیب خالی تھی۔ اسے بٹھا تو لیا اور اماں جان کے پاس دوڑا آیا کہ شاید کچھ مل جائے۔  مگر انھوں نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ طبیعت ضدی تھی۔ خیال آیا کہ اس خوانچہ فروش سے پوچھوں کہ پیتل لے کر مٹھائی دے سکتا ہے یا نہیں۔  بد قسمتی سے اس نے ہاں کہہ دی بس پھر کیا تھا۔ سائے کی طرح ابا جان کے کمرے میں گھسا اور بڑے ٹیبل فین کے پیچھے لگے پیتل کے پرزے کو اتار خوانچہ فروش کو دے آیا اور مٹھائی لے لی۔

لیکن شامت اعمال کہ ہمارا شوفر ادھر سے گزر رہا تھا۔ اس نے آ کر ابا جان سے شکایت کر دی۔ میں خوشی خوشی اچھلتے کودتے جو گھر کی حدود میں داخل ہوا تو مجھے اطلاع ملی کہ ابا جان بلا رہے ہیں۔  ڈرتے ڈرتے ان کے کمرے میں گیا۔ وہ اپنی آرام کرسی پر نیم دراز تھے۔  مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور تین چار تھپڑ میری گردن پر جما دیے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6