یہ لوگ پیدا ہی کیوں ہوتے ہیں ؟


آخر یہ حیرت اور دکھ کیوں کہ دیکھو یار عزت مآب چیف جسٹس حسین نقی جیسے جئید صحافی اور قلم کار سے واقف نہیں۔ معلوم ہونے کے بعد کم ازکم چیف جسٹس نے معذرت تو کر لی۔ یہاں تو معلوم لوگوں پر یاروں نے وہ وہ احسانات کیے کہ مجھ پے احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا۔

حبیب جالب کہ جس کے لیے ایوب خان سے نواز شریف تک ہر کسی کا خواب رہا کہ یا تو یہ کمبخت چپ ہو جائے یا بک جائے یا پھر مر جائے۔ پر جالب نہ چپ ہوا نہ فروخت ہوا۔ فروخت ہوا بھی تو مرنے کے بعد کہ اس کے عزیزوں نے انا کے قیدی جالب کے نام کو اے ٹی ایم مشین میں بدل ڈالا کہ جس میں کبھی پیسے ہوتے ہیں اکثر نہیں ہوتے۔

اور جالب مرنے کے بعد دوبارہ مر گیا ہوگا جب اپنی یہ لائن شہباز شریف کا ٹریڈ مارک بنتے دیکھی ہوگی ’ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا۔ ‘

فلم جبرو کی کمپوزیشن ’دمادم مست قلندر‘ پر نور جہاں سے میکا سنگھ تک کس کس نے دھمال نہ ڈلوایا۔ اس کمپوزیشن کا خالق ماسٹر عاشق حسین ڈیڑھ برس پہلے لاہور کے بھاٹی گیٹ کے بازارِ حکیماں میں فاقہ مست مر گیا۔ ابھی تین ہفتے پہلے ایک بھلے مانس وفاقی وزیر نے فون کیا کہ آپ نے ایک بار ماسٹر عاشق حسین کا ذکر کیا تھا۔ ان کا ایڈریس دے دیں حکومت کچھ مدد کرنا چاہتی ہے۔

بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں کسی نے ان کے سیکرٹری بشیر ریاض سے تذکرہ کیا کہ اردو کے ایک کہانی کار نعیم آروی اور پاکستان کے واحد صحافتی مورخ ضمیر نیازی مشکل میں ہیں۔ دونوں کو زکواۃ فنڈ سے پچاس پچاس ہزار روپے کے چیک جاری کر دیے گئے۔ ضمیر نیازی نے شکریے کے ساتھ چیک واپس کر دیا۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ضمیر نیازی کو پرائیڈ آف پرفارمنس اور لاکھ روپے کا چیک ملا۔ مگر اس سے پہلے سندھ حکومت نے چھ اخبارات کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔ ضمیر نیازی نے ایوارڈ اور چیک لوٹا دیا۔

فہمیدہ ریاض جب سات برس کی خود ساختہ جلاوطنی کاٹ کے دلی سے وطن واپس آئیں تو بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت نے انہیں نیشنل بک فاؤنڈیشن کا چیئرپرسن نامزد کر دیا۔ اگلے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے آتے ہی بے نظیر کے دور میں کی گئی تقرریاں منسوخ کرتے ہوئے بھری اسمبلی میں کہا ’اس عورت ( بے نظیر بھٹو ) نے بھارتی ایجنٹوں کو نوکریاں دیں۔ ‘ کئی برس بعد نعرہ لگا ’مودی کا جو یار ہے غدار ہے‘ ۔

سنا ہے پچھلے ہفتے فہمیدہ ریاض کا حالتِ علالت میں لاہور میں انتقال ہوا تو متعدد شاعروں اور ادیبوں اور صحافیوں اور دانشوروں نے صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے فہمیدہ کی عظمت کو زبانی و تحریری سلام کیا۔ ان خراج تحسینیوں میں نوے کی دہائی کے ایک مدیر صاحب بھی شامل ہیں جنہوں نے اردو، فارسی، ہندی، انگریزی اور سندھی میں رواں فہمیدہ کو پانچ ہزار روپے پر رکھنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ فی الحال مترجم کی آسامی نہیں۔

فہمیدہ کی آخری نوکری ایک سرکردہ اشاعتی ادارے میں تھی۔ وہ مسودوں کی ایڈیٹنگ اور ترجمہ کاری کا کام کرتی تھیں۔ یوں گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ کچھ عرصے پہلے انہیں کہا گیا کہ گھر پے کام بھیج دیا کریں گے۔ کام جانے آیا کہ نہ آیا پر وہ کام آ گئیں۔

یارو بس اتنا کرم کرنا، پسِ مرگ نہ مجھ پے ستم کرنا
مجھے کوئی سند نہ عطا کرنا دینداری کی
مت کہنا جوشِ خطابت میں، دراصل یہ عورت مومن تھی

مت اٹھنا ثابت کرنے کو ملک و ملت سے وفاداری
مت کوشش کرنا اپنا لیں حکام کم ازکم نعش مری

یاراں، یاراں، کم ظرفوں کے دشنام تو ہیں اعزاز مرے
منبر تک خواہ وہ آ نہ سکیں، کچھ کم تو نہیں دلبر میرے
ہے سرِ حقیقت جاں میں نہاں اور خاک و صبا ہمراز مرے

توہین نہ ان کی کر جانا خوشنودیِ محتسباں کے لئے
میت سے نہ معافی منگوانا دمساز مرے
تکفین مری گر ہو نہ سکے
( ”تعزیتی قرار دادیں“ از فہمیدہ ریاض)

جدید اردو ناول، تھیٹر اور ٹی وی کا بڑا آدمی، ٹیچر اور بھٹو کا دوست ڈاکٹر انور سجاد ان دنوں لاہور میں بہ سببِ علالت گوشہ نشین ہے۔ سنا ہے ایک اخباری ادارہ پاس ِوضع داری میں ان کا خیال رکھتا ہے۔ مگر ہم جیسے منتظر ہیں کہ کس روز ڈاکٹر صاحب کی تاریخی خدمات کو شاندار خراجِ عقیدت پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).