ڈاکٹر شیر شاہ سید اور کوہی گوٹھ ہسپتال


پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں طبی سہولیات کا گراف محض سرکاری فائل کے کاغذات میں نہیں بلکہ ان تمام دور افتادہ دیہاتوں اور گوٹھوں کے کچے پکے راستوں پر بھی رقم ہوتا ہے جن راستوں پر سے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا کسی بھی غریب و نادار مریض کو چارپائی، اونٹ، گدھے یا خچر پر ڈال کر کسی بڑے سرکاری ہسپتال لایا جاتا ہے اور پھر مطلوبہ ڈاکٹروں کے پیچھے بھاگ دوڑ کر کے مریض کی جان بچانے کی آخری دم تک کوشش کی جاتی ہے۔ ان تمام مراحل میں مریض کے ساتھ آنے والے ورثا بھی ایک ایک ساعت اس غریب ملک کے غریب شہری ہونے کا تاوان ادا کرتے ہیں۔

اس وقت بڑے شہروں میں بنے سرکاری خیراتی ہسپتالوں کی حالت بھی سب کو معلوم ہے اور انہی شہروں میں قائم لاکھوں نجی (پرائیویٹ) ہسپتالوں کی داخلہ فیسیں اور ادویات کے اخراجات بھی سب کے علم میں ہیں کہ غریب شہری تو ان نجی ہسپتالوں کا رخ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سفید پوش لوگ بھی ان نجی ہسپتالوں میں علاج کرواتے کرواتے اکثر مقروض ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے بے لوث شخصیات کے قائم کردہ مستند فلاحی ادارے ایسے ہیں جو بے لوث طبی خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن 21 کروڑ سے زائد آبادی کے لیئے ایسے اداروں کی تعداد بہت کم ہے۔ بدقسمتی سے مخیر حضرات کی اکثریت ایسے اداروں کی کارکردگی کا یا تو علم نہیں رکھتی یا ان اداروں میں بطور عطیہ اپنے صدقہ، خیرات و زکوة وغیرہ جمع کروانے سے لاپرواہی برتتے ہیں۔ ان حالات میں ایسے اداروں کا انتطام کامیابی سے برقرار رکھنا بہت ہمت کا کام ہے۔ ایسے ہی باہمت سماجی خدمت گاروں کی فہرست میں ایک معتبر نام ڈاکٹر شیر شاہ سید کا ہے۔ جو پیشے کے لحاظ سے گائناکالوجسٹ ہیں اور اس وقت کراچی، پاکستان میں کوہی گوٹھ پراجیکٹ کے نام سے ایک طبی تربیتی ادارہ چلا رہے ہیں جس کے تحت کوہی گوٹھ ہسپتال بھی سال 2006 میں قائم کیا گیا جو پاکستان میں فیسٹیولا کے مفت علاج کا واحد ہسپتال ہے۔

کوہی گوٹھ ہسپتال کے بارے میں مزید بتانے سے پہلے ڈاکٹر شیر شاہ سید کا مختصر تعارف بیان کر دیں۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید کراچی کے مشہور ”ڈاکٹروں کے خاندان“ کے فرزند ہیں۔ ان کی والدہ ڈاکٹر عطیہ ظفر سید پاکستان کی وہ منفرد خاتون ڈاکٹر تھیں جو قیامِ پاکستان کے وقت جب اپنے شوہر ابو ظفر سید ظفر اور دو بچوں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئیں تو ان کی تعلیم فقط یہ تھی کہ وہ قرآن پڑھنا جانتی تھیں ۔ وہ مزید پڑھنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے نہ صرف میٹرک کیا بلکہ شوہر کی حوصلہ افزائی پر مزید تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کیا۔ میڈیکل کی تعلیم بنگال سے اور پھر سندھ سے مکمل کی ۔اس کے بعد کراچی آ گئیں، یہاں کے سول ہسپتال میں ہاؤس جاب کیا اور لیاری میں ہی ایک کلینک کا آغاز کر دیا۔

Dr Sher Shah – First from the left

1965 کی جنگ کے بعد عطیہ ظفر سید کو ڈسٹرکٹ کونسل میں بحیثیت ڈاکٹر نوکری مل گئی اور انہوں نے نوکری کے ساتھ ساتھ ملیر میں ہی ایک کلینک بھی شروع کردی۔ اس زمانے میں پورے ملیر اوراس کے نواح میں کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں تھی۔ جلد ہی وہ پورے علاقے میں مقبول ہوگئیں اور انہوں نے اپنے شفاخانے کے ساتھ ایک چھوٹا سا میٹرنٹی ہوم کھول لیا جو آہستہ آہستہ بڑا ہوکر جنرل ہسپتال کی شکل اختیار کرگیا۔ آج وہ عطیہ ہسپتال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عطیہ ہسپتال کو منظم کرنے لیے عطیہ ظفر سید نے جو ٹھوس عملی اقدامات کیے انہی کی بدولت آج عطیہ جنرل ہسپتال کی آمدنی کوہی گوٹھ ہسپتال کے مریضوں پر خرچ ہوتی ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید کے تعارف میں یہ پس منظر بیان کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ہمیں اس معاشرتی المیہ کا اندازہ ہو کہ ایک طرف تو قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کر کے آنے والی ایک کم پڑھی لکھی لیکن پرعزم مسلمان خاتون نے نہ صرف خود کو طب کے شعبے کے لیئے وقف کیا بلکہ اپنی گود میں پروان چڑھنے والے آٹھ بچوں (چار بیٹیوں اور چار بیٹوں ) کو بھی طب سے منسلک کر کے ایک ایسے خاندان کی بنیاد رکھی جو ”ڈاکٹروں کا خاندان“ کہلایا اور اس وقت بھی اس خاندان کی بہوئیں، داماد، نواسیاں، نواسے، پوتے، پوتیاں سب ہی ڈاکٹر ہیں لیکن لمحہ فکریہ یہ بھی کہ اس غریب سے ملک میں ایسے بے مثل گھرانوں کے باوجود پاکستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے ان ستر سالوں میں اپنی دیہی آبادی کو غربت، جہالت اور پسماندگی کی گرداب سے نکلنے نہیں دیا۔ آج بھی اس ملک کے دور افتادہ دیہی علاقوں کی عورتیں زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں مگر ان کے دیہاتوں میں اور نہ قریبی ڈسٹرکٹ میں ایسا کوئی ہسپتال ملتا ہے جہاں مستند ڈاکٹر ہوں اور جدید طریقہِ علاج سے ان کو موت کے منہ میں چلے جانے سے بچایا جا سکے۔

اس وقت کوہی گوٹھ ہسپتال نہ صرف حاملہ خواتین کو بہترین اور جدید طبی سہولیات فراہم کر رہا ہے بلکہ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی بہت سی غریب مائیں جو کہ بچہ کی پیدائش کے بعد فیسٹیولا (Fistula)کے مرض کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان کو بھی مفت طبی سہولیات دیتا ہے اور آپریشن کے ذریعے مکمل علاج کر دیا جاتا ہے۔ عموما یہ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی وہ خواتین ہوتی ہیں۔ جو بچے کی پیدائش کے دوران دائیوں کی بے احتیاطی سے ایک ایسے اندرونی زخم (فیسٹیولا) سے دوچار ہوتی ہیں کہ ان پڑھ دائیوں کے پاس ان کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔۔ لہذا ایسی عورتیں گھر کے ایک کونے میں اپنے غلاظت والے بدبودار بدن کے ساتھ بے یار ومددگار پڑی رہتی ہیں۔ انہیں کسی مبروص کی مانند اپاہج سمجھ کر گھر کے ایک کونے میں پھینک دینا اور کئی بار تو انہیں گھر سے ہی نکال دینااُس ان پڑھ اور پسماندہ ماحول میں ایک عام سی بات سمجھی ہے اوریہ غیر انسانی رویہ معیوب نہیں جانا جاتا۔ لہذاوہ بیمار و لاچارعورتیں بس اپنی موت کے انتظار میں اپنی زندگی کی باقی سانسیں لیتی رہتی ہیں

ان غریب اور ان پڑھ لوگوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا  کہ اس بیماری کا علاج اسی ملک میں موجود ہے۔ بھلا ان کو کون بتلائے؟ وہ وڈیرے، چوہدری، خان اور جاگیردار کہ جو پیدا ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ اس غریب طبقے کو اپنا محکوم بنائے رکھیں، اپنی جاگیریں دن دگنی رات چوگنی بڑھائیں مگر اس غریب طبقے کو یونہی پسماندہ رکھیں۔ ہر الیکشن میں اسی محکوم طبقے کی ووٹوں سے کامیاب ہو کر اسمبلیوں میں اپنے قدم جمائیں۔ خود بیمار پڑیں تو سرکاری خرچے پر بیرونِ ملک علاج کو جائیں، سرکاری طور پر سہولت نہ بھی ملے تو باپ دادا کی چھوڑی ہوئی زمینوں کی آمدن ہی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ آرام سے بیرونِ ملک اپنا علاج کروا سکتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اپنے گاؤں سے گزرنے والی پکی سڑک بھی ان کے لیے خطرے کا الارم ہوتی ہے کہ کہ یہ سڑک ان کے محکوم غلاموں کو شہر کی راہ نہ دکھا دے۔

کوہی گوٹھ ہسپتال کی تعمیر ایسے ہی پسماندہ طبقے کی خواتین کی مشکلات دور کرنے کی غرض سے ہوئی ہے۔ یہ ہسپتال اس وقت کیا کیا خدمات انجام دے رہا ہے اس کی تفصیل ذیل کے لنک پر موجود ہے۔

http://koohigothhospital.org/

اس ہسپتال کو کامیابی سے چلانے اور مزید پھلنے پھولنے کے لیے ہر صاحبِ شعور شہری کی توجہ درکار ہے۔ اس سلسلے میں ہماری معاونت کی نوعیت دو قسم کی ہو سکتی ہے۔ ایک تو ہسپتال کی تشہیر ان علاقوں اور ان افراد تک ہو جو ابھی تک اس اہم ہسپتال کے قیام کے مقاصد و ہدف سے نابلد ہیں۔ دوسرے ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم اس ہسپتال کی فنڈنگ میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ضرور حصہ لیں۔ کوہی گوٹھ ہسپتال اپنے تمام مریضوں کا نہ صرف مفت علاج کرتا ہے بلکہ جب غریب دیہی خواتین اس ہسپتال سے مکمل شفا پا کر اپنے گھروں کو رخصت ہوتی ہیں تو ہسپتال کی طرف سے ان خواتین کو مفت سلائی مشینیں بھی دی جاتی ہیں تاکہ وہ کپڑے سینے کے کام سے اپنے ذرائع آمدن بڑھائیں۔

اس وقت کوہی گوٹھ پراجیکٹ نہ صرف ہسپتال کو چلا رہا ہے بلکہ یہاں باقاعدہ ٹریننگ سینٹر ہے جس کے تحت ہر سال طبی امور کے لیئے تربیتی کلاسز ہوتی ہیں اور بہت سے طلبا یہاں سے سند پا کر مختلف اداروں میں طبی خدمات انجام دیتے ہیں۔ کوہی گوٹھ پراجیکٹ پچھلے دس سال سے ہمہ جہت خدمات انجام دے رہا ہے اور ایک ایسے ہسپتال اور پراجیکٹ کے چلتے رہنے کے لیئے بہت لازم ہے کہ ہم متوسط لوگ اور مخیر حضرات اپنے صدقات، خیرات اور زکوة وغیرہ کی رقم کوہی گوٹھ ہسپتال کے اس اکاؤنٹ میں جمع کروا سکتے ہیں۔

اکاﺅنٹ برائے وصولیِ عطیات : ۔

ACCOUNT TITLE: KOOHI GOTH HOSPITAL

ACCOUNT NO. : 1112-0981-001000-01-7

BANK NAME : BANK AL HABIB LTD

BRANCH : MALIR CITY KHI

IBN NO. :PK14 BAHL , SWISS CODE : BAHL PKKA XXX

اکاﺅنٹ برائے وصولیِ زکوٰة:۔

ACCOUNT TITLE: KOOHI GOTH HOSPITAL

ACCOUNT NO. : 1112-0081-001000-01-8

BANK NAME : BANK AL HABIB LTD

BRANCH : MALIR CITY KHI

IBN NO. : PK87 BAHL , SWISS CODE : BAHL PKKA XXX

ڈاکٹر شیر شاہ سید طب کے ساتھ ساتھ تحریر و تصنیف کا بھی شغف رکھتے ہیں ۔ ان کے لکھے افسانے رسالوں کی زینت بھی بنتے ہیں اور اب تک کئی افسانوی مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ ان کے زیادہ تر افسانے در حقیقت وہ نثری داستانیں ہیں جو کہ روزانہ وہ اپنے مریضوں کے حالاتِ زندگی جان کرانہیں افسانوں کی شکل میں (حقیقی ناموں کی تبدیلی کے ساتھ) ہمارے آگے پیش کر دیتے ہیں۔عام فہم اور سادہ الفاظ میں بہت پرتاثیر خامہ فرسائی قارئین کے دلوں میں اتر جاتی ہے اورافسانوی مجموعے کی شکل میں چھپنے والی ان کی تمام کتب کی آمدنی بھی کوہی گوٹھ کے مریضوں پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس کارِ خیر میں نہ صرف ڈاکٹر شیر شاہ سید کی تحریریں کام آتی ہیں بلکہ ان کی سماجی خدمات کے مشن میں ان کی ایک اور معاون و ساتھی گوہر تاج صاحبہ نے بھی اب تک مختلف سماجی اور نفسیاتی موضوعات پر لکھی گئی اپنی بہت سی لکھی ہوئی کتب کو کوہی گوٹھ کی آمدن بڑھانے کے لیئے مختص کیا ہے۔ ان کتب کی خریداری بھی بلاشبہ کوہی گوٹھ کے لیئے عطیات پیش کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید کی تمام کتب فضلی سنز پبلشرز سے خریدی جا سکتی ہیں ۔

ملنے کا پتہ : ،فضلی بک سپر مارکیٹ :507/3 ، ٹیمپل روڈ ، اردو بازار ، نزد ریڈیو پاکستان ، کراچی 74200

فون نمبر :Phone : 9221-2629725 /2212991/ 2629721/ 2629720 ۔ ۔ ۔۔ Fax: 9221-2633887


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).