قانونی دستاویز نے شہباز اور فواد کے خلاف آشیانہ کیس کی بنیاد ہی ختم کر دی


شہباز شریف اور فواد حسن فواد کے خلاف نیب کے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کے بنیادی کیس کو ایک قانونی دستاویز نے تباہ کر دیا ہے اور اس سے انکشاف ہوا ہے کہ پروجیکٹ کے لئے لطیف اینڈ سنز کا کنٹریکٹ منسوخ ہوا ہی نہیں تھا بلکہ ٹھیکیدار اور پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایل ڈی سی) کے درمیان باہمی معاہدے کے تحت ختم کیا گیا تھا۔ دی نیوز کے پاس معاہدے کی نقل دستیاب ہے، اور یہ نیب کا کیس خراب کرنے کے لئے کافی ہے۔  نیب نے شریف اور فواد کو یہ پروجیکٹ من پسند کمپنی کو دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کر رکھا ہے۔

معاہدے کی نقل پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران فواد حسن فواد کے وکیل کی طرف سے پیش کی گئی، اس میں دونوں فریقین، لطیف سنز اور پی ایل ڈی سی، کے دستخط موجود ہیں۔  معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ایک ارب 49 ؍ کروڑ 52 ؍ لاکھ 22 ؍ ہزار 824 ؍ روپے کے منصوبے پر عمل کے لئے 16 ؍ فروری 2013 ء کو طے پانے والے معاہدے کو فریقین باہمی اتفاق رائے کے ساتھ ختم اور منسوخ کرتے ہیں۔  معاہدے پر 9 ؍ نومبر 2013 ء کو دستخط کیے گئے اور اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فریقین اپنی منشا اور خوشی سے ناگزیر وجوہات کی بنا پر پروجیکٹ پر عمل کا معاہدہ ختم کرتے ہیں اور کسی بھی فریق کا دوسرے فریق پر کوئی دعویٰ یا ہرجانہ نہیں واجب الادا ہے۔

اس معاہدے کے منظرعام پر آنے کی وجہ سے نیب کے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق سیکریٹری برائے وزیراعظم کے کیس کو نیا ڈرامائی موڑ مل گیا ہے۔  دونوں نیب کی حراست میں ہیں۔  پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں معاہدے کی نقل پیش کیے جانے کے بعد نیب کا یہ دعویٰ مسترد ہو جاتا ہے کہ فواد حسن فواد نے غیر قانونی طور پر آشیانہ کا کنٹریکٹ اپنے عہدے (سیکریٹری عملدرآمد برائے وزیراعلیٰ پنجاب) کا غلط استعمال کرتے ہوئے منسوخ کرایا۔

نیب کی جانب سے گرفتاری کے لئے جو وجوہات عدالت میں پیش کی گئی تھیں وہ یہ تھیں کہ مارچ 2013 ء کے دوران ملزم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکریٹری فواد حسن فواد (اس وقت کے سیکریٹری عملدرآمد) نے اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال کیا اور اس میں بدنیتی شامل تھی، انہوں نے پی ایل ڈی سی، بورڈ، کے اختیارات غیر قانونی طور پر حاصل کیے اور غیر قانونی ہدایات جاری کیں اور اس وقت کے سی ای او طہور قریشی اور پروجیکٹ ڈائریکٹر سید علی معظم پر دباؤ ڈالا کہ وہ چوہدری عبداللطیف اینڈ سنز کو دیے گئے قانونی ٹھیکے کو منسوخ کریں۔

نیب نے مزید الزام عائد کیا تھا کہ فواد حسن فواد نے سی ای او پر دباؤ ڈالا کہ وہ ٹھیکہ منسوخ کریں۔  شہباز شریف، جنہیں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں گرفتار کیا گیا تھا، پر بھی بدنیتی سے ٹھیکہ منسوخ کرانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں پیر کے روز ہونے والی کارروائی میں فواد کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اس وقت سب کو حیران کر دیا جب انہوں نے انشکاف کیا کہ کالسنز (چوہدری لطیف اینڈ سنز) کا ٹھیکہ منسوخ کیا ہی نہیں گیا تھا بلکہ 9 ؍ نومبر 2013 ء کو پی ایل ڈی سی اور کالسنز نے ایک معاہدے کے تحت باہمی رضامندی سے کنٹریکٹ کو ہی منسوخ کر دیا۔

دی نیوز کے پاس اس معاہدے کی مستند نقل دستیاب ہے جو پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی تھی۔ باہمی معاہدے کی شرائط یہ ہیں کہ آشیانہ کی کنٹریکٹر کمپنی کالسنز فروری 2013 ء میں تفویض کردہ تمام حقوق و مفادات سے دستبردار ہو جائے گی۔ معاہدے کے تحت کالسنز نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح کے وسائل کا دعویٰ کرے گی اور نہ ہی کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی کرے گی۔ اس کے عوض، پی ایل ڈی سی نے کالسنز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی 7 ؍ کروڑ 40 ؍ لاکھ ( 74 ؍ ملین) روپے کا زر ضمانت واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور کالسنز نے پی ایل ڈی سی کی جانب سے دیے گئے موبلائزیشن ایڈوانس کی مد میں دیے گئے 74 ؍ ملین روپے واپس کیے۔

اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ کالسنز کے مستقبل کے ٹینڈرز میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ اس بات پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ سائٹ پر جو بھی کام ہو چکا ہے اس کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کی ادائیگی سات دن میں کی جائے گی۔ عدالت میں پیش کردہ دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ کالسنز نے 4 ؍ کروڑ روپے کا دعویٰ کیا اور ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے دعوے کا جائزہ لیتے ہوئے کالسنز کو 59 ؍ لاکھ روپے کی ادائیگی کی جسے کالسنز نے قبول کیا۔

معاہدے کی تصدیق نوٹری پبلک کی جانب سے کی گئی ہے۔  فواد کے وکیل نے دلیل دی کہ جس وقت فریقین کے درمیان یہ معاہدہ ہوا اس وقت فواد پنجاب میں کسی عہدے پر نہیں تھے بلکہ انہیں اپریل 2013 ء میں وفاقی حکومت میں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ پروجیکٹ کا معاہدہ منسوخ کرنے کے معاہدے پر اس وقت کے پی ایل ڈی سی کے چیف ایگزیکٹو شاہد لطیف نے دستخط کیے تھے جبکہ نیب نے الزام عائد کیا ہے کہ فواد نے سی ای او طاہر خورشید پر معاہدہ منسوخ کرنے کے لئے دباؤ ڈالا، جبکہ طاہر خورشید باہمی معاہدے سے کئی ماہ قبل ہی ٹرانسفر ہو چکے تھے۔  عجیب بات یہ ہے کہ نیب اس کیس پر گزشتہ کئی ماہ سے تحقیقات کر رہا ہے لیکن اس اہم دستاویز کو کبھی سامنے نہیں لایا۔ معاہدے کے سامنے آنے کی وجہ سے شہباز شریف اور فواد حسن فواد کو گرفتار کرنے کے لئے بتائی گئی وجوہات ختم ہو گئی ہیں اور ان کے خلاف نیب کے کیس کی قلعی کھل گئی ہے۔

(انصار عباسی۔ بشکریہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).