کنفیوز ڈیموکریٹس اور ٹرمپ


وسط مدتی انتخاب کا سب سی بڑا نچوڑ یہ ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاست اس وقت صرف اس مفروضے پرگھومتی ہے کہ وہ ٹرمپ نہیں ہیں۔ ہر لمحہ صدر ٹرمپ کے فضائل بیان کرنا، ان کے اداکیے ہرلفظ کوآئین کی خلاف ورزی سے لے کر نسلی امتیاز کے اشاروں اور امریکی جمہوری اور ثقافتی اقدارکی پامالی کے لیے ٹٹولنا، یہ سب تو ٹی وی پر بیٹھے اینکر اور ظریف بھی کر سکتے ہیں اور بخوبی کر رہے ہیں۔ مگر ایسے میں ڈیموکریٹ کہاں ہیں؟

ٹرمپ کے کارہائے نمایاں کو یہاں رقم کرنے کی اس لئے کوئی ضرورت نہیں کہ ایک سادہ سی انٹرنیٹ سرچ کیجیئے اور آپ کو بیسیوں ایسے لنک مل جائیں گے جوٹرمپ کی نسل پرستی اور عورتوں کے بارے میں اس کے رکیک خیالات سے لے کرصدر پوتن کے ساتھ ساز باز کر کے الیکشن جیتنے کے الزام، اپنے ٹیکس گوشوارے ظاہر نہ کرنا، اپنے کاروبار سے صدر بننے پر علیحدگی نہ اختیار کرنا، نیٹو کو کمزور کرنے کی کوشش کرنا، موسمیاتی تبدیلی پر پیرس معاہدے سے نکل جانا، سفید فام قومیت پر یقین رکھنے والے عناصر کی حوصلٰی افزائی کرنا اور اپنے آمرانہ رویے سے حکومتی اداروں کو کمزور کرنا اور امریکہ کو فسطائیت کی طرف دھکیلنا، یہ سب وہ کارنامے ہیں جن کی وجہ سے ڈیموکریٹس نے پچھلے دو سال میں اور وسط مدتی انتخابات سی پہلے یہ ڈھول خوب پیٹا کہ صدر ٹرمپ امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی تباہی کی نہج پر لا چکے ہیں۔

تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ڈیموکریٹ اس پیغام کو ایک مکمل الیکشن جیت میں تبدیل کرنے میں کیوں ناکام رہے؟ یہ سوال پوچھا رالف نادر نے ڈیموکریسی ناؤ کی الیکشن کی خصوصی نشریات میں راۓ دیتے ہوئے ۔ نادرایک لبنانی امریکی ہیں اور امریکہ میں صارفین کے حقوق، ماحولیات اور حکومتی اصلاحات کے بہت بڑے علم بردار رہے ہیں۔ 1965 سے ان کی کوششوں کی وجہ سے بہت سے ایسے قانون پاس ہوئے جو شہریوں کے حقوق کو واضح کرتے ہیں۔ 20 سے زیادہ کتابوں کے مصنف اور اپنی ضدمات کے لیے کئی ایوارڈ لینے والے رالف نادر نے یہ انتہائی جائزسوال پوچھا کہ اگر ٹرمپ واقعی امریکہ کی سالمیت کے لیے اتنا ہی بڑا خطرہ ہیں تو پھر ڈیموکریٹ کانگریس کے دونوں ایوانوں میں واضح اکژریت حاصل کرنے میں کامیاب کیوں نہ ہو سکے۔

نادر اوران جیسے دوسرے مبصریہ سوال اٹھاتے ہیں کہاس کی سب سے بڑی وجہ اصل میں یہ ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس اپنا کوئی پیغام ہے ہی نہیں۔ امیگریشن اور ٹیکسوں کے نظام کے بارے میں، فوجی اور خارجہ پالیسی کے بارے میں، وال سٹریٹ کے امریکی سیاست پر اثرورسوخ کے بارے میں اور پھولے ہوئے فوجی بجٹ پر ان کا کیا موقف ہے۔ انتہائی غربت کے بارے میں پارٹی کیا پالیسی اپنانا چاہتی ہے، کارپریٹ بدعنوانی کے خلاف صارفین کے حقوق کے بارے میں وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔

جب ان سے یہ کہا جاتا ہی کہ اس وقت بے روزگاری کا تناسب کافی کم ہے تو وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اجرت بہت عرصے سے بڑھی نہیں ہے، اقلیتی ورکر لیبر فورس چھوڑ رہے ہیں مگر واپس نہیں لوٹ رہے۔ وہ عارضی ورکر جو 21 گھنٹے کام کرتے ہیں انہیں بھی مکمل طور پر ملازم سمجھا جاتا ہے۔ 40 % گھرانے غربت میں ہیں، 5 % بچے بھوکے ہیں اور دو تہائی گھرانے ایسے ہیں جن کے پاس مشکل وقت کے لیے 400 ڈالر تک کی بھی بچت نہیں ہے۔ نجی جیلوں پر پارٹی کیا رائے رکھتی ہے جب کہ دنیا بھر کی 22 % قید آبادی صرف امریکہ میں ہے صرف نیو یارک سٹیٹ میں تین چوتھائی قیدی وہ ہیں جو بغیر کسی الزام کے جیلوں میں بند ہیں۔

یقیناً ان وسط مدتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا 40 % تناسب بہت حوصلہ افزا ہے۔ عورتوں کی ایک ریکارڈ تعداد نے حصہ لیا اور منتخب ہوئیں۔ خود ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر سوشل ڈیموکریٹس کے نام سے برنی سینڈرس سے متاثر بائیں بازو کا دھڑا ابھرا جو پارٹی کی روایتی سیاست، جس سے اس کے حامی بہت حد تک خائف ہیں اورجو پارٹی کو ایک نیا رخ دینا چاہتا ہے۔ لیکن پارٹی ایسٹبلشمنٹ کا حال یہ ہے کہ ان نمائندوں کو الیکشن میں مدد کے لئے پارٹی فنڈ ہی فراہم نہیں کیے گئے۔

بات سادہ سی ہے۔ امریکی جمہوریت کے بارے میں یہ خدشہ تو ظاہر کیا ہی جاتا ہی کہ وہ اب اشرافیہ کی حکومت بن چکی ہے۔ لیکن اگرعمومی طور پر لبرل حلقوں کے مطابق ڈانلڈ ٹرمپ اب اسے آمرانہ اور فسطائی رخ دینے کی طرف گامزن ہیں تو پھر ڈیموکریٹک پارٹی کو وہ سیاست کرنے ہو گی جو لوگوں کے مسائل میں جذب ہو کر وجود میں آتی ہے، اورجو وال سٹریٹ کے مرہون منت نہیں ہوتی۔ اگر ڈیموکریٹک پارٹی اپنا کوئی واضح لائحۂ عمل تشکیل نہیں دیتی، ان الیکشن میں اپنے اندر آنے والے نئے حوصلہ افزا خون کو تقویت نہیں پہنچاتی تو صدر ٹرمپ کے دوسرے دور حکومت کو ممکن بنانے کا کچھ سہرا وہ اپنے سر باندھنے کو بھی تیار رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).