موجودہ حکومت کے 100 دن کی رپورٹ


موجودہ حکومت کے 100 دن پورے ہونے والے ہیں۔ عمران خان نے اپنی حکومت میں آنے کے بعد عوام سے اپنے پہلے خطاب میں بہت سارے وعدے کیے اور انھیں 100 دن کے اندر پورے کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ عمران خان نے سو دن میں اپنے کتنے وعدے مکمل کیے اور کتنوں کو ادھورا چھوڑا ہم اس پر نہیں جاتے۔ ہم بات اس پر کرتے ہیں۔ حکومت کے ابتدائی تین مہینوں میں ملک کے اندر کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئی۔ جس کا ہم تصور بھی نہیں کررہے تھے۔

یہ تبدیلیاں ناممکن سی لگتی تھی، لیکن عمران خان نے آتے ہی ان پر کام کرنا شروع کردیا جو پچھلی حکومتوں کے دورہ حکومت میں نہیں ہوا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ جب عمران خان نے عوام سے اپنا پہلا خطاب کیا بطورِ وزیراعظم تو انھیں سن کر ایسا لگا کہ کوئی آپ کو تسلی دے رہا ہوں کہ میں ہوں نہ آپ لوگ فکر کیوں کرتے ہو۔ آپ لوگوں کی پریشانیاں میں حل کروں گا، بس آپ نے میرا ساتھ دینا ہے۔ پورا خطاب سننے کے بعد ساری فکریں، پریشانیاں جیسے ختم ہوتی ہوئی نظر آرہی تھی۔

دل کو سکون ملا کہ کوئی تو ہے اس دنیا میں جسے اللّہ تعالی نے ہمارے لیے ہمارے ملک کی بہتری کے لئے بھیجا ہے، جو ہمارے سارے مسائل، پریشانیوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو ہم میں سے ہے خطاب سن کر فوراً اللّہ کا شکر ادا کیا۔ اگر ہم دیگر پچھلی حکومتوں کے خطاب سن لیں تو انسان مایوسیوں کے دلدل میں ڈھنستا چلا جائے۔ اب آتے ہیں۔ دیگر تبدیلیوں کی طرف پنجاب میں جہاں نون لیگیوں نے کتنے ہی سالوں سے قبضہ کیا ہوا تھا اور اپنی من مانی کرتے تھے کوئی قانون نہیں تھا اور اگر تتھا بھی تو اس پر عمل در آمد کرانے والہ کوئی نہیں۔

لیکن اب لاہور میں حیرت انگیز طور پر ٹریفک کے نظام میں نظم و ضبط آرہا ہے۔ موٹر سائیکلیں سڑک کے بائیں جانب چل رہی ہیں۔ لوگ موٹر سائیکل چلاتے وقت ہیلمنٹ لازمی پہن رہے۔ گاڑیوں کے مکمل کاغذات و لائسنس اپنے پاس رکھ رہے ہیں۔ ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کا بھی چالان کیا جارہا ہے نا صرف عام عوام کا بلکہ اثرورسوخ رکھنے والے لوگوں کا بھی چالان کاٹا جارہا ہے۔ اس کے خلاف لاہوریوں اور دیگر شہروں کی عوام نے احتجاج تو کیا لیکن دباؤ کے باعث سیدھے ہوجاتے ہیں۔

ملک بھر میں لینڈ مافیا کے بارے میں یہ خیال مستحکم ہوچکا تھا کہ ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کے ہاتھ بہت لمبے اور مضبوط ہیں ان لمبے اور مضبوط ہاتھوں کے پیچھے سیاسی جماعتیں ملوث ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں لاتعداد ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کیا ہی کہنے جہاں کروڑوں اور اربوں روپے کی ناجائز تجاوزات کو مسمار کیا وہیں لینڈ مافیا سے زمینوں پر قبضے بھی چھوڑوائے کئی سیاستدانوں کے ناجائز پیٹرول پمپس بھی ختم کروائے یہ کارروائیاں بلا امتیاز ہورہی ہیں۔

پی ٹی آئی کا کوئی رکن یا کارکن بھی ناجائز تجاوزات یا لینڈ مافیا کا حصہ تھا تو اسے بھی اس سارے معاملے میں پیس دیا گیا ہے۔ چیخیں تو بہت سنائی دی گئی ہیں لیکن کارروائیاں مسدود نہیں ہوسکی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کہیں گندم کے ساتھ گھن بھی پِس گیا ہو لیکن ملک کی مجموعی عوام نے اس عمل کو سراہا اور سخی تحسین کی ہے۔ لاہور تا کراچی یہ کام مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اربوں روپے کی سرکاری زمینوں کی واگزاری کوئی معمولی کارنامہ ہے؟

وزیراعظم عمران خان نے اپنے وزیروں پر چیک رکھنے کا ایک اصول بھی وضع کیا ہے۔ حکم دیا گیا ہے کہ وہ سال میں صرف تین بار غیر ملکی دورے کرسکیں گے، اکانومی کلاس میں سفر کریں گے سینیٹ اور اسمبلی سیشنز کے دوران کوئی وزیر غیر ملکی دورہ نہیں کرے گا اور پارلیمانی اجلاسوں کے دوران اسلام آباد میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائے گے۔ وفاقی وزیروں اور بیورو کریٹوں پر پابندی عائد کی جا چکی ہے کہ وہ اپنا علاج اپنے ملک میں ہی کرائیں گے بیرون ملک نہیں کراسکیں گے۔

عوامی شکایات کے ازالے کے لئے پاکستان سٹیزن پورٹل قائم کیا گیا ہے جہاں ایک منٹ میں تین لاکھ بیاسی ہزار شکایات درج کروانے کا عمل شرع کیا جاچکا ہے۔ یہ کوشش دکھوں کے مارے عوام کے لئے ریلیف ملنے کی امید کی پہلی کرن ہے۔ نئے پاکستان میں صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی غیر ملکی دورے پر جاتے ہوئے اپنے ملکی ائیرپورٹ پر بغیر پروٹوکول امیگریشن کرواتے ہوئے اپنے بیگ کی سکریننگ خود کرواتے اور عام پرواز پر سفر کرتے ہوئے دکھائی دیے۔

ریلوے کا نظام میں بھی بہتری آئی ہے ایک ارب روپے سے زائد کا منافع کمانے کی خبر سامنے آئی ہیں۔ یقین کرلیں تو اس سے حوصلہ ملتا ہے۔ قانون کے نظام میں بہتری لانے اور تھانوں کی کارکردگی کو عوام دوست بنانے کے لئے وفاقی وزیر شہر یار آفریدی رات کی تاریکی میں تھانوں میں چھاپے مار رہے ہیں۔ ان کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں کے تھانوں کا نظام درست ہورہا ہے تھانوں میں معصوم شہریوں کو بغیر کسی وجہ کے بند کیے جانے کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں جو اچھے کام کیے ہیں وہ سراہے جانے اور تحسین کے قابل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).