۔۔۔اور اب قندیل بلوچ رویہ


\"rabiپاکستانی سماج کی نفسیات اُس نابینا کے ہاتھی کی طرح ہے جو جہاں سے چھوتا تھا اُسی طرح کا اُسے محسوس ہوتا تھا۔ پاکستانی سماج میں رویے جس طرح تبدیل ہوتے ہیں اسی تیزی کے ساتھ نئے رجحانات بھی در آتے ہیں۔ شدت پسندی، آزاد خیالی، طالبانی سوچ، ضیاالحقی رویہ،وغیرہ وغیرہ۔ اب ایک اور رویہ تیزی سے سماج کا جزو ناگزیر بنتا جا رہا ہے اور وہ ہے ’’قندیل بلوچ رویہ‘۔ آپ قندیل بلوچ سے آگاہ نہیں تو اس رویے سے بھی آگاہ نہیں ہوں گے۔ اگر آپ نے اس ہستی کا نام اور \”کام\” دیکھ رکھا ہے تو آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گے۔ قندیل بلوچ رویہ پوری نفسیات ہے جو آپ کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔

یہ وہی قندیل بلوچ ہے جس نے کچھ عرصہ قبل یہ دعویٰ کیا تھاکہ اگر پاکستان انڈیا سے ٹی ٹونٹی میچ جیت گیا تو وہ \”سٹریپ ٹیز ڈانس\” کرے گی۔ اس خبر کو بھارتی میڈیا نے خوب بڑھا چڑھا کے پیش کیا تھا۔ اُس کے بعد پاکستانی میڈیا چینلز (جو حسبِ توفیق اس طرح کے موضوعات ڈھونڈتے رہتے ہیں) پر قندیل بلوچ تقریباً ہردوسرے ٹاک شو میں نظر آنے لگی۔ سوشل میڈیا پر اُس کی ویڈیوز کو دھڑا دھڑ لائکس ملنے لگے اور آج کی تازہ خبر کے مطابق قندیل بلوچ کو پاکستانی فلم انڈسٹری تک رسائی مل گئی ہے یعنی اب وہ ایک ہیرؤین بن کر معاشرے کے نوجوانوں کی آئیڈیل بنے گی۔ سٹرپ ٹیز ڈانس یا اوٹ پٹانگ ویڈیوز جس کا واحد سورس سوشل میڈیا تھا اور قندیل بلوچ کا یہ انفرادی عمل تھا لیکن یہ کہنا غلط نہیں کہ یہ درحقیقت ایک رویے کا نام ہے جو محنت کئے بغیر عروج حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جس کے پیشِ نظر صلاحیت یا قابلیت کے ذریعے اپنی جگہ بنانا مقصد نہیں بلکہ شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے کسی بھی طرح منظر عام پر آنا اور چھا جانا ہے۔

ہم اپنے اردگرگرد کا تھوڑا سا جائزہ لیں تو ہمیں ہر طرف اسی طرح کے رویوں کا اظہار ملے گا، یہی قندیل بلوچ قسم کے افراد سماج کی ہر سطح پر ملیں گے۔ فلم انڈسٹری، میڈیا، تعلیم، این جی اوز اور حتیٰ کہ مذہبی حوالے سے نمایاں افراد بھی ان رویوں کی گنگا میں بہتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک عورت پر جب یہ رویہ حاوی ہوتا ہے تو وہ زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ عورت کے حقوق کی بات تو کی جاتی ہے مگر پاکستانی معاشرے میں عورت کے جنسی استحصال کے اس رویے پر اعتراض کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ ہمارے ہاں یہ ایک نارمل سا رویہ ہے کہ عورت بطور جنس پیش کی جارہی ہے۔ عورت کو ہر سطح پر توجہ کھینچنے کے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ الیکڑانک میڈیا کو ہی لے لیں، ہر اشتہار خواہ وہ ریزر کا ہو یا ہاؤسنگ سوسائٹی کا، عورت کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاتا۔ یہ امر بہت افسوسناک ہے کہ یوں تو معاشرے میں عورت کو عورت ہونے کا احساس ہر سطح پر دلانے کے لیے مرد حضرات پیش پیش ہوتے ہیں مگر عورت کی اس تذلیل پہ وہ اپنے ہونٹوں کو سی لیتے ہیں۔ اصل میں جب عورت خود ہی اپنے آپ کو استحصال کے لیے پیش کر دے تو آپ کس طرح مردانہ حاکمیت والے معاشرے کو عورت کے حقوق کے تحفظ، احترام اور جنسی تفریق کے خاتمے سے آگاہی کا درس دیں گے۔ \”قندیل بلوچ رویہ\” باغیانہ نفسیات سے جنم لیتا ہے جو اپنے استحصال کے پس منظر میں حاصل ہونے والے مفادات کا پورا ادراک رکھتا ہے اور مفادات کی شیرینی سے لطف اٹھاتے وقت اپنے استحصال کی لذت سے بھی لطف اٹھاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments