لیڈر بننے کے سو طریقے


یہ ایک غیر مطبوعہ، ہاتھ سے لکھی ہوئی کتاب کا نام ہے جس کا مسودہ کل ہی محض اتفاقاً میرے ہاتھ لگا ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اس کا مصنف خود بھی لیڈر سازی کے عمل سے گزر رہا ہو گا اور لیڈر بننے کے اس عمل کے دوران کسی مرحلے پر اُس نے لیڈر بننے کا ارادہ ترک کر دیا ہو گا مگر عامۂ الناس کی آگاہی کے لئے لیڈر بننے کے یک صد نسخے ایک کتاب میں درج کر دیے ہیں۔ لگتا ہے کتاب کا مصنف کسی وقت چائے پینے کی خاطر پپو کے ہوٹل پر رکا ہو اور غلطی سے یہ نایاب نسخہ میز پر ہی بھول گیا ہو جو میز صاف کرتے ہوئے میرے ہاتھ لگ گیا۔ اگر میں خود اس کالم میں اس کا ذکر نہ کرتا تو یہ بات کسی کو معلوم تک نہ ہوتی کہ اس نہایت ہی اہم موضوع پر ایک کتاب آ چکی ہے۔

میں چاہتا تواس کتاب کو یا کم از کم اس میں درج قیمتی نسخہ جات کو اپنے ذاتی مقاصد اور تشہیر کے لئے استعمال کرسکتا تھا مگر یہ بات ایمانداری کے تقاضوں کے خلاف تھی۔ لہٰذا میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ مسودہ اس کے خالق کو واپس کر دیا جائے۔ اب یہ کتاب میرے پاس اس کے مصنف کی امانت ہے وہ کسی بھی وقت نشانی بتا کر علم و حکمت کے اس خزانے کو واپس لے سکتا ہے کیونکہ میں نے اس کی فوٹو سٹیٹ کاپیاں کروا لی ہیں۔

اس کتاب کے سرسری مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کتاب کے مندرجات سے زیادہ اہم اس کی ٹائمنگ ہے۔ کتاب کا ایک ایسے مرحلے پر ایک عوامی مقام یعنی کھوکھا ہوٹل پر لاوارث ملنا کسی بہت بڑے گیم پلان کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ ایک سکہ بند لیڈر نے لیڈر بننے کا ایک مُجرب نسخہ پہلے ہی دنیا کو بتا دیا ہے۔ کتاب کی ٹائمنگ کو اس کے مندرجات اور اس کے مصنف کے بھلکڑ پن سے ملا کر پرکھا جائے تو کہانیمزید کھُلنا شروع ہو جاتی ہے۔

پھر بھی ایسی کسی سازش کا تعلق برادر ملکوں سے ملنے والے یا نہ ملنے والے اقتصادی پیکچز کے ساتھ بالکل بھی نہیں لگتا۔ کیونکہ کتاب میں کسی کرکٹر کے لیڈر بننے کا کوئی طریقہ درج نہیں ہے۔ مگر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مصنف نے کرکٹرز کے سیاسی کردار کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے کیونکہ کتاب کے ایک باب میں پھٹیچر اور ریلو کٹے کی اصطلاحات بھی استعمال کی گئی ہیں۔ یہ اصطلاحات اُن لوگوں کے لئے استعمال ہوئی ہیں جو لیڈر بننے کی ان ترکیبوں کی بجائے کوئی دوسرے نسخے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے یا وہ لوگ جو لیڈر بننے کے عمل کو کسی بھی صورت ترک نہیں کریں گے۔

البتہ بعض مقامات پر پھٹیچر اور ریلو کٹہ کی اصطلاحات کا استعمال مصنف کی ان لوگوں کے لئے محبت کی ایک علامت کے طور پر بھی ہوا ہے۔ مذید برآں لیڈر بننے کے ایک ٹریک ”سب چور ہیں، کچھ چور ہیں، صرف وہ چور ہیں جو ہمارے ساتھ نہیں“ کی ترکیب بھی شامل ہے۔ کتاب کے آخر میں ایک ضمیمہ بھی شامل کیا گیا ہے جس کا عنوان ہے ”لیڈر نہ بننے کے دس طریقے“۔ البتہ اس عنوان کے تحت بتائے گئے طریقوں میں مصنف نے کوئی نئی بات نہیں کی ہے بلکہ لیڈر نہ بننے کے وہی طریقے بیان گئے ہیں جو آج کل ملکِ عزیز میں رائج ہیں اور جو صحیح بھی ثابت ہو چکے ہیں اور چند سیاستدان ان پر عملُ پیرا بھی ہیں۔

قارئین کی تفریح طبع کے لئے کتاب میں ایک باب ”متفرقات“ کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ اس باب میں ڈالروں کی بارش کے متعلق کچھ پیشین گوئیاں بھی شامل کی گئی ہیں جس سے مصنف کی حسِ مزاح کا پتہ چلتا ہے۔ اسی باب میں ایک سرٹیفیکیٹ کا عکس دیا گیا ہے جو مصنف کے وعدے کے مطابق ایسے سیاستدانوں اور اداروں کو جاری کیا جائے گا جو مصنف کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔ اس سرٹیفیکیٹ کا نام ”صاف شفاف“ سرٹیفیکیٹ ہے۔ ہٹلر اور نپولین نے لیڈر بننے کے جو طریقے استعمال کیے اُن کو اس کتاب میں جگہ ملی ہے یا نہیں، یہ آپ کو کتاب کے مطالعہ کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے۔

کتاب بہت جلد میرے نام سے شائع ہو کر مختلف ٹی وی چینلز کے سٹالز پر دستیاب ہو گی۔ لیڈر بننے کے شائقین اور نہ بننے کے متاثرین سے گزارش ہے کہ کتاب خریدنے سے پہلے سرورق پر میرا نام بطور مصنف پڑھ کر اُس کے اصلی ہونے کا اطمینان کر لیں کیونکہ یہی حقیقی سرقہ شدہ مسودہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).