کشمیر جیسا یا عبوری صوبائی سیٹ اپ ؟


گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال مقپون کے بیان کہ ”عبوری صوبہ ہمارے لئے موزوں آپشن ہے“، کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث شروع ہوگئی۔

کشمیر سیٹ اپ کی شان میں قصیدے لکھنے لگے تو عبوری صوبے کے اوصاف بیان ہونے لگے۔ اس وقت ایشو یہ نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پر کون کس کے ثمرات بیان کرتے ہیں۔ اس سے قبل کہ ہم دونوں سیٹ اپس کے ثمرات پر غور کرے، سوچنا اس بات پر ہے کہ تحریک انصاف کی بنائی کمیٹی اور سب کمیٹی کیا گلگت بلتستان کے عوامی نمائندے رکھتے ہیں؟ اس سے بھی پہلے یہ کہ اس سے قبل ”سرتاج عزیز کمیٹی“ جس کی بنیاد پر یہ موجودہ کمیٹیاں بنیں، اس میں گلگت بلتستان کی واقعا حقیقی نمائندگی تھی جو پارٹی موقف کی بجائے عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے؟

سب جانتے ہیں کہ سرتاج عزیز کمیٹی میں وزیر اعلیٰ جی بی حافظ حفیظ الرحمان رکنیت رکھتا تھا۔ اس کمیٹی کے سفارشات اور اصل حقائق سے عوام کے نمائندے یعنی وزیر اعلیٰ نے نا صرف عوام سے مخفی رکھا بلکہ اسی دوران ان کے ٹی وی انٹرویو میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی تھی کہ کمیٹی میٹنگ میں ان کے اٹھائے گئے پوائنٹ ”سیٹل اینڈ ان۔ سیٹل ایریاز“ پر بھی غور کیا گیا۔ یعنی تقسیم گلگت بلتستان پر بھی بات ہوئی۔ جیسی بھی ہوں کمیٹی کی سفارشات فائنل ہوگئیں مگر عوام کے سامنے نتیجتا نون لیگ کی وفاقی حکومت کے جاتے جاتے ایک جلدبازی میں تیار شدہ جبری آرڈر 2018 کی شکل میں تھونپا گیا۔ جسے عوام نے ہی نہیں بلکہ مقامی کورٹ نے بھی رد کردیا۔ مگر کہانی نہیں رکی۔

وفاق میں تبدیلی کی سونامی آگئی۔ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے کیس کو اہمیت ملی۔ کئی سماعتوں میں حکومت سے جواب طلب کیے۔ یکے بعد دیگر تاریخیں دی گئیں۔ نیا گورنر تعین ہوا۔ حکومت نے کمیٹی بنائی۔ گورنر کو کمیٹی ممبر بنادیا گیا۔ کمیٹی کی سب کمیٹی بھی بن گئی اور۔ ۔ ۔ ۔
”بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے“

اب نئے گورنر راجہ جلال مقپون سپریم کورٹ کی طرفسے حکومت سے جواب طلبی کے نتیجے میں بننے والی کمیٹی کے رکن ہیں۔ ان کا تازہ بیان یہ اشارہ دے رہا ہے کہ شاید اس بار علاقے کو عبوری صوبائی سیٹ اپ دینے پر غور کیا جارہا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ عبوری صوبہ کن خصوصیات کا حامل ہوگا۔

اگر عبوری سیٹ کا نقشہ انڈیا کے جموں کشمیر طرز کا ہو تو میرا نہیں خیال کہ یہ ہمارے لئے برا ہو۔ خبروں کے مطابق وہاں پر مقامی افراد کو تمام تر حقوق حاصل ہیں۔ وہاں پر ڈیموگرافی بدلنے کی اجازت نہیں یعنی غیر مقامی افراد وہاں نہیں بس سکتے۔ جسے عام طور پر سٹیٹ سبجیکٹ رول کہا جاتا ہے۔ داخلی طور پر صوبائی سیٹ اپ موجود ہے اور ہندوستانی پارلیمان یعنی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں جموں کشمیر عوام کی نمائندگی بھی ہے۔

یعنی ملکی قوانین اور فیصلہ سازی میں وہاں کی عوام کی رائے شامل ہے۔ ایسا نظام اگر گلگت بلتستان میں بھی رائج کیا جائے جسے پاکستانی آئین میں ڈکلیئر کیا جائے تو یہ عوام کے مفاد میں ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ صوبائی سیٹ اپ کے ساتھ مکمل حقوق کے نعرے اور مطالبے آزادی گلگت سے ابتک عوام اور تمام وفاقی جماعتوں بشمول نون لیگ، پی پی پی، قاف لیگ، تحریک انصاف اور مذہبی جماعتوں مجلس وحدت مسلمین اور اسلامی تحریک وغیرہ کے بھی رہے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ تمام تر وعدوں، نعروں اور مطالبات کے باوجود نون لیگ، قاف لیگ، پی پی پی اور اسلامی تحریک مقامی حکومتیں قائم کرکے بھی علاقے اور عوام کو متنازعہ خطے کے حقوق دلا سکے نا ہی صوبائی سیٹ اپ۔

دوسری طرف جماعت اسلامی سمیت کئی مقامی تنظمیوں نے کشمیر طرز کا سیٹ اپ دے کر داخلی خود مختاری کا مطالبہ اپنائے رکھا ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی اس سے قبل آزاد کشمیر سے ملانے کا بھی مطالبہ کرتی رہی اور ان کی قیادت جسے تنظیمی اصطلاح میں امیر کہا جاتا ہے، اب بھی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لئے مشترک ہے۔ جبکہ مقامی جماعتیں علیحدہ ریاست بلورستان وغیرہ کے بھی مطالبات کرتے رہے۔ گویا کہ اس وقت جماعت اسلامی اور مقامی جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔

یہ بات سب پر واضح ہے کہ کشمیر سیٹ کشمیریوں کو ملے دہائیاں گزر گئیں۔ وہاں کے لوگ اس سیٹ اپ سے کتنا خوش ہیں یہ قارئین پر چھوڑتے ہوئے اتنا سوال سامنے رکھتا ہوں کہ کیا آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم وفاقی وزیر امور کشمیر سے زیادہ با اختیار ہیں؟ اگر ہاں تو کشمیر طرز کے سیٹ اپ پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ ہمیں کشمیر طرز پر اندرونی خودمختاری دی جائے۔ جس میں سٹیٹ سبجیکٹ رول سمیت تمام تر متنازعہ علاقے کے حقوق بشمول با اختیار صدر اور وزیر اعظم مع کابینہ (ڈمی/ نمائشی نہیں ) شامل ہوں۔

قبل اس کے کہ گفتگو تمام ہوں، اس بات کا خیال رہے کہ اکہتر سال سے لٹکائے ایشو کا فیصلہ ہماری وفاقی، مذہبی یا قوم پرست جماعتوں کی خواہشات سے نہیں ہونے جا رہا۔ نا ہی میرے یا کسی اور کے مطالبے سے۔ ۔ ۔ بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت پاکستان کی سفارشات کی روشنی میں کرنا ہے۔ جوکہ آسان نہیں۔ ستر سال لگے ہیں الجھانے میں۔
وفاق میں حکومت اس وقت انصافیوں کی ہے اور ہم بیس بائیس لاکھ عوام گزشتہ اکہتر سالوں سے تحریک انصاف کی نہیں بلکہ انصاف کے منتظر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).