عمران خان اور ٹرمپ کی ٹوئٹر پر لفظی جنگ


پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات اس وقت کشیدگی کا شکار ہیں اور صدر ٹرمپ بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا رہا ہے۔ چند دن قبل صدر ٹرمپ نے اک انٹرویو میں اپنے الزامات کو دہرایا پھر بعد میں صدر ٹرمپ کے ٹویٹر ہینڈل سے انٹرویو کے دوران بولے گئے جملوں پر مبنی اک ٹویٹ کیا گیا

یہ اک الگ بات ہے کہ ان کی یہ تنقید سوچی سمجھی نہیں بلکہ موضوع کو تبدیل کرنے کی اک کوشش تھی ٹی وی میزبان نے جب بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن میں شامل ایڈمرل میک ریون پر صدر ٹرمپ کو ان کی تنقید پر چیلنج کیا تو ٹرمپ بظاہر موضوع سے گریز کرتے ہوئے پاکستان پر ”جمپ“ کر گئے۔ بعد میں اس برسبیل تذکرہ جملوں کو سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا

ان الزامات کے بعد وزیراعظم عمران خان نے جو موقف اختیار کیا راقم اس سے صد فیصد اتفاق کرتا ہے اک پاکستانی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے عمران خان نے ٹوئٹر پر جاری مختصر پیغام میں کہا کہ ’امریکہ کو افغانستان میں اپنی ناکامی پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ایک لاکھ 40 ہزار نیٹو افواج، ڈھائی لاکھ افغان فوجیوں اور ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں کیوں طالبان پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔ ‘

سیانے کہتے ہیں پولیس کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی بالکل اسی طرح اگر آپ امریکہ کے ماضی اور رویوں پر غور کریں تو اک عقلمند انسان کے نزدیک امریکہ کی دوستی اور دشمنی دونوں نقصان دہ ہیں

ماضی میں امریکہ متعدد بار پاکستان کو استعمال کر چکا ہے امریکی کیمپ کا حصہ بننے والے لیاقت علی خان جس کے قتل کا شبہ میں اک عرصے تک ہمارے قبیلے کے نواب مشتاق خان گورمانی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا کو مروانے والے یہی انکل سام تھے پھر افغان جہاد کے وقت جنرل ضیا الحق مرحوم کو ڈالرز سے بھری بوریاں بھجوائیں تو نائن الیون کے بعد جنرل مشرف پر بھی ڈالرز کی برسات کر دی گئی افغان جہاد کے کردار جنرل ضیاءالحق اور جنرل عبدالرحمان کے خاندان موجود ہیں اور جنرل پرویز مشرف بھی دیس بدیس اڑتے پھر رہے ہیں گو مذکورہ لوگ ڈالروں میں کھیلتے ہیں مگر امریکہ نے مطلب نکلنے کے بعد ان ڈالرز کا خراج کیسے وصول کیا یہ تاریخ کا حصہ ہے

حال ہی میں اک امریکی قانون کے تحت اک مخصوص عرصہ گزرنے کے بعد افشا کی جانے والی دستاویزات کے مطابق لیاقت علی خان کو امریکہ نے قتل کروایا تھا اس ضمن میں افغانیوں کو استعمال کیا گیا جنرل ضیاءالحق کو دیے جانے والے ڈالرز کا حساب طیارے میں اپنے تین بندے قربان کر کے برابر کیا تو جنرل مشرف کو ایوان صدر سے نکالنے کے لیے پاکستانی سیاسی جماعتوں اور اداروں کو استعمال کیا عمران خان برحق ہیں کہ امریکہ کسی دن اہل پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر حساب کرلے۔ 18 ارب ڈالر حکمرانوں کو دیے اور اس ملک کا اڑھائی سو ارب ڈالر کا مجموعی مالی نقصان ہوا۔ پچھلے 20 سالوں کے دوران جو لاکھوں انسان کھیت ہوئے وہ انمول تھے۔ گویا امریکہ کی دوستی امریکہ نہیں بلکہ پاکستان کو مہنگی پڑی ہے۔

آدھی صدی قبل کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے امریکہ نے دشمنوں سے زیادہ دوستوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستانی دوستوں کو دیکھیں تو روس کی بجائے امریکہ کو دوست چننے والے لیاقت علی خان ہوں یا بھٹو کا تختہ الٹنے سے لے کر افغانستان میں سویت یونین کو شکست دینے والے ضیاءالحق، مطلب نکلتے ہی دوستی کے خراج میں ان کی جانیں وصولیں۔ عالمی سطح پر نظر دوڑائیں تو مصر کے انوار السادات کا شمار بھی امریکہ کے ان دوستوں میں ہوتا ہے جنہوں نے امریکہ کی دوستی کا پھل جان چکا کر پایا۔ ضیاءالحق نے ڈالرز سے بھری بوریاں لیں تو انوارالسادات نے کیمپ ڈیوڈ کے بدنام زمانہ معاہدے سے ملک کا قرضہ معاف کرایا اور فلسطینیوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا مطلب نکلنے کے بعد امریکہ نے اک مصری سپاہی کے ہاتھوں انوار کو مروا دیا صدام حسین اک اور نام ہے ان سے ایران پر حملہ کروایا قریب قریب اک عشرہ چلنے والی ایران عراق جنگ دونوں ملکوں کو ساڑھے تین کھرب ڈالر میں پڑی۔

جس میں سات لاکھ افراد کھیت ہوئے۔ نو سال بعد عراق ایران جنگ تمام ہوئی۔ میڈیا نے صدام کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی اور امریکہ کے سابق دوست نے پر پرزے نکالنے شروع ہی کیے تھے کہ عراق پر امریکی قابض ہوئے پھر ایک دن صدام غار سے برآمد ہوئے۔ مقدمہ چلا اور پھانسی چڑھا دیے گئے۔ اگر کوئی سمجھنا چاہے تو امریکہ پر انحصار و بھروسا کرنے اور اپنے تئیں خالص امریکی دوستی پر ملک و قوم کی غیرت قربان کرنے والے ان حکمرانوں کے انجام میں سبق ہے راقم جذباتی کرداروں کے امریکہ سے تعلقات توڑنے کے بچگانہ مطالبے کو حرف غلط سمجھتا ہے۔

ہاں تعلقات اگر برابری پر استوار نہ ہوں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بنا لگی لپٹی بات یہ ہے کہ امریکیوں کو اب پاکستان کی ضرورت نہیں رہی ڈیڑھ ارب کی آبادی والا بھارت اس کا نیا اتحادی ہے۔ امریکہ کو چین سے جو معاشی خطرہ درپیش ہے اس کے چلتے پاکستان کی نسبت بھارت امریکہ کو کہیں زیادہ فائدے میں پڑتا ہے امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی 130 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھارت میں ہے۔ 2025 ء تک یہ سرمایہ کاری 180 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔

پاکستان میں جو امریکی مصنوعات روزانہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں بکتی ہیں بھارت میں ان کی تعداد سوا کروڑ ہے ویسے بھی پاکستان اب زیادہ تر مصنوعات کے لیے چین پر انحصار کرتا ہے المختصر معاشی مفادات کے چلتے امریکہ کو بھارت کی دوستی جچتی ہے اور بھارت کو چین اور پاکستان دونوں سے مقابلے کے لیے روس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی بھی ضرورت ہے بھارتی یہ بات ٹھیک سے سمجھ چکے ہیں کہ ملکوں میں دوستیاں نہیں مفادات ہوتے ہیں روس اپنے مفادات کے لیے چائنہ اور پاکستان سے تعلقات کو نیا موڑ دے سکتا ہے لہذا بھارت کو بھی ملکی مفادات کے پیش نظر امریکہ کا دست شفقت سر پر ہونا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے

اب ان حالات میں گو عمران خان نے شاندار موقف اپنایا ہے مگر اک ایسے وقت میں جب سوائے چین کے باقی تمام ہمسایوں سے پاکستان کے تعلقات بداعتمادی کا شکار ہیں کیا بیک وقت بھارت اور امریکہ دونوں سے پھڈے کا ملک متحمل ہو سکتا ہے موسمی حب الوطنوں اور جذباتی مسخروں کے برعکس راقم سمجھتا ہے کہ امریکہ سے قطع تعلق ملکی مفاد میں ہرگز نہیں لہذا بہترین سفارتکاری کا ہتھیار استعمال کیجیے پڑوسیوں سے خوشگوار تعلقات بنائیے اگر ہم ملکی وقار پر سمجھوتا نہ کرنے کے ساتھ ترقی بھی چاہتے ہیں تو برابری کی سطح پر تعلقات کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک سے تعلقات کی پالیسی پر بھی ازسر نو کام کرنا ہو گا کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ پڑوسی کے گھر میں لگی آگ کی تپش آپ اپنے گھر میں بھی محسوس کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).