فن کار خاموش نہیں ہیں


چوتھا بین الاقوامی فیض فیسٹیول اختتام کو پہنچا۔ شہر میں اور سوشل میڈیا پر کئی مباحث چھوڑ گیا۔ اس کو کیسے منانا چاہیے تھا اور کیسے منایا گیا، فیض کو بیچا گیا، سستا بیچا گیا، فیض کو اصل وارثوں سے دور کر دیا گیا، اصل فیض میلہ تو وہ ہے جو اوپن ائیر تھیٹر میں ہو الحمرا میں تو ایلیٹ کا اور سرمایہ داروں کا اکٹھ تھا، فیض اور سرمایہ داری۔ چہ معنی دارد؟ غرضیکہ جتنے منہ ہیں اس سے کوئی دوگنا باتیں ہیں۔ ہمیں تو ذاتی سطح پر بھی پھبتی کا سامنا کرنا پڑا کہ جب ہم نے اس میلے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تو ہماری ایک دوست نے ارشاد فرمایا کہ آپ بھی ہو آئے آزادی کی ”سیل“ سے، اگرچہ لفظ سیل سے ہم خود بھی محظوظ ہوئے لیکن ہم نے فوراً ایک مصرع مستعار لے کر گرہ لگا دی کہ ”بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں“ تس پر مزید ارشاد ہوا کہ ونڈو شاپنگ زیادہ مضر ہوا کرتی ہے۔ اب ان کے تیور دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ گرہ بازی مزید جاری تو دوغزلہ کیا سہ غزلہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے ”ہم چپ رہے، ہم ہنس دیے، منظور تھا پردہ تیرا، اپنا، فیض میلے سب کا ہی۔ “

فیض فیسٹیول میں کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا ہوتا رہا؟ ”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے“ جیسے لازوال مصرعے تخلیق کرنے والے کے نام پر کہ جس سے درد کے رشتے کے اشتراک کے سبب ہزاروں غمگساد الحمرا میں چلے آئے تھے وہاں کس کس کا درد سنا گیا اور کون کون راندہ درگاہ ٹھہرا، اسٹیج پر کون لوگ متمکن ہوئے اور کن کو دعوت کے بعد معذرت سے نوازا گیا اس پر آپ بہت کچھ کہہ، سن، لکھ اور پڑھ چکے۔ ہمیں بس یہ کہنا ہے کہ ان سب زباں بندیوں، پابندیوں، سرمایہ داریوں اور مصلحتوں کے بیچوں بیچ کچھ ایسا بھی ہو رہا تھا جس کا تذکرہ ضروری ہے۔

جیسے جرمن ڈرامہ نویس برتولت بریخت نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا تاریک دور میں گیت زندہ رہیں گے؟ کہا تھا کہ ہاں گیت گائے جاتے رہیں گے البتہ تاریک دنوں کے بارے میں، اس میلے میں ایسے ہی کچھ گیت گائے بھی گئے ہیں۔

یہ گیت ایک منظوم ڈرامہ تھا جو فضا کی مرئی اور غیر مرئی پابندیوں اور سرمایہ داریوں کے جبر کے باوجود ناصرف پیش کیا گیا بلکہ اس کے دیکھنے پر کوئی ٹکٹ بھی نہیں رکھا گیا تھا۔

ذکر ہے سنگت تھیٹر کی پیش کش ”ملتان شہر دی وار“ کا۔ دراصل یہ نجم حسین سید کی ایک طویل نظم کی ڈرامائی پیشکش تھا، جس کو ہما صفدر نے ڈائریکٹ کیا۔ وار Epic کے لیے پنجابی زبان میں مستعمل ہے۔

اس منظوم ڈرامے میں شاہ شمس گردیزی کے ملتان میں قیام اور پھر موت کو گلے لگا لینے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ڈرامے میں ملتان شہر کی تاریخ، سماج اور ثقافت کو عمدگی سے پیش کیا گیا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کئی دہائی قبل لکھی جانے والی اس نظم کی ہماری حالیہ تاریخ سے مماثلت حیران کن ہے۔ ہم اس مماثلت کو کھول کھول کر بیان کرنے کا رسک نہیں لے سکتے کہ ڈرامہ منظوم تھا جبکہ ہمارا تبصرہ نثری ہے۔ اور شاید یوسفی صاحب نے کسی جگہ لکھا ہے کہ مشاعرے میں جس شعر پر لوگ اچھل اچھل کر داد دے رہے ہوتے ہیں وہی بات اگر نثر میں کہہ دی جائے تو دوسرے لوگ تو دور کی بات گھر والے ہی سر پھاڑ دیں۔

تو ہمیں اپنا اور ”ہم سب“ کا سر عزیز ہے۔ ڈرامے کی کہانی مختصراً یوں تھی۔ ملتان شہر کے لوگوں پر مقتدر حلقوں کا جبر واضح ہے۔ سرکار لوگوں کی محنت مزدوری اور کاشتکاری سے ہونے والی یافت پر نظر جمائے رکھتی ہے اور آنے بہانے لوٹ کھسوٹ کرتی ہے۔ شاہ شمس فصیلِ شہر سے باہر ڈیرہ جمائے ہوئے ہے۔ سرکار لوگوں کے مل جل کر رہنے اور ہنسنے کھیلنے کو بھی برا خیال کرتی ہے۔ ادھر شاہ شمس لوگوں کو زندگی گزارنے کے گر سکھا رہا ہوتا ہے۔

نوجوان اس سے متاثر ہو کر اس کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ شہر اور مضافات میں شمس کی تعلیمات کی دھوم ہے۔ سرکار اس سب کو اپنے تاج و تخت کے لیے خطرہ خیال کرتی ہے۔ شاہ شمس کے حلقہ اثر کے لوگوں میں سے ہی ایک نوجوان لڑکی کو سرکاری کارندے بہانے سے اغوا اور بعد ازاں قتل کر دیتے ہیں۔ لاش رات کے اندھیرے میں شاہ شمس کی جائے قیام کے قریب پھینک دی جاتی ہے۔ سرکار پراپیگنڈہ کرواتی ہے کہ شمس کی اصلیت یہ ہے کہ یا وہ اپنے ہی لوگوں کا قاتل ہے یا قاتلوں کا ساتھی ہے۔

بالآخر شاہ شمس کو موت کو ہی گلے لگانا پڑتا ہے۔ لیکن اختتام پر اسی شمس کا عرس سرکاری سطح پر منایا جا رہا ہوتا ہے۔

ڈرامے کی اس تلخیص کو قاری لمحہ موجود اور اس کے واقعات سے کس طور جوڑتا ہے یہ قاری کی صوابدید پر ہے۔ ہمیں آخر میں برتولت بریخت ہی کی ایک نظم جس کا پنجابی ترجمہ شاید مقصود ثاقب نے کیا تھا، پیش کرنا ہے۔ اس نظم میں اٹھائے گئے سوال کا جواب ہم مضمون کے عنوان میں ہی رکھ چکے ہیں :

کوئی نہیں پُچھے گا
کد ننھے ہتھاں نے چِکنے پتھراں نال،
تالاب چ خُوبصُرت لہراں اُٹھائیاں
پُچھن گے جنگ دی تیاری کد شُروع ہوئی؟
کوئی نہیں پُچھے گا،
کد حُسن کمرے چ داخل ہویا !
پُچھن گے لوکاں دے خلاف
سازشاں کدوں رچیاں گئیاں؟
کوئی نہیں پُچھے گا،
اخروٹ دا درخت کد جُھوم اُٹھیا،،
پُچھن گے سرکار نے کد مزدُوراں نُوں
کُچل کے رکھ دِتا؟
نہیں کہن گے، کہ وقت بُرا سی !
پُچھن گے کہ تُہاڈے فنکار کیوں خاموش سن؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).