کارو کاری کی گھناؤنی رسم اور حوا کی بیٹی


سندھ میں آج کے اس جدید دور میں حوا کی بیٹی کے ساتھ ظلم، زیادتی، تشدد اور قتل، غارت کے واقعات سامنے ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حوا کی بیٹی کارو کاری کی گہنوئنی رسومات کی بہینٹ چڑھ گئی۔ ایسی رسومات کے اگر بات کی جائے تو سندھ کے کشمور، جیکب آباد، شکارپور اضلاع میں سب سے زیادہ کارو کاری کی رسومات چل رہی ہیں۔ جن کی بھینٹ میں حوا کی بیٹی پر تشدد بھی ہوتا ہے، اور قتل بھی کیا جاتا ہے، کارو کاری کیا ہے، اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟

کارو کاری کا نام اس لڑکی پر آتا ہے، جو لڑکی اپنی پسند سے کسی لڑکے کو پیار کرتی ہو۔ یا پھر لڑکی کسی سے بات کرتے ہوئے پکڑی گئی ہو۔ تو اسے غیرت کا نام دے کر اس لڑکی اور لڑکے کو کارو کاری کا الزام دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس لڑکی کو قتل کیا جاتا ہے، یا پھر اس پر تشدد کیا جاتا ہے۔ اور لڑکے کے فریق والوں کو کارو کاری کے الزام میں جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ جو یہاں کے جاگیردار اس معاملے کا جرگہ منعقد کرتے ہیں۔ جس پر لاکھوں روپے جرمانہ عائد ہوتا ہے۔ جو قتل ہونے والی لڑکی کے شوہر یا پھر اگر وہ کنواری ہوگی،تو اس کے باپ اور بھائیوں کو جرمانہ ملتا ہے۔

کچھ لوگ کارو کاری کے الزام میں اگر اس لڑکی کو قتل نہیں کرتے، تو پہلے اس کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ پھر جرگہ کرنے کے بعد، کاری فریق سے جرمانہ لے کر اس لڑکی کی دکان کھول دیتے ہیں۔ اور وہ ماں باپ شادی کا نام دے کر اپنی بیٹی اور بہن کو لاکھوں روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ پھر ساری زندگی وہ حوا کی بیٹی اس معاشرے میں طعنوں اور سسکیوں میں زندگی کے دن گزارتی رہتی ہے۔ یہاں پر مرد کو تو آزادی ہوتی ہے، کہ وہ جہاں چاھے اپنی پسند کی شادی کے لئے لڑکی کو پسند کرے۔ مگر افسوس یہاں پر لڑکیوں کو کوئی اجازت نہیں ہوتی، کہ وہ اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرسکیں۔

سندھ کے مذکورہ اضلاع میں ایسی بے ہودہ رسمیں آج بھی موجود ہیں۔ ضلع کشمور، کندھ کوٹ اور تنگوانی کے علائقوں میں حوا کی بیٹیوں پر کارو کاری کے الزام میں تعداد شمار کیا گیا، تو کارو کاری کی بے ہودہ رسومات کے بھینٹ چڑھنی والی خواتین حالیہ سال میں دو سو سے زائد ایسے کیسسز ملے، جن میں پچاس سے زائد خواتین کارو کاری کے نام پر قتل ہوئیں، چالیس سے زائد لاش گم کر کے ان کا نام و نشان مٹا دیا گیا، ایک سو سے زائد خواتین تشدد کے شکار میں آکر انہیں فروخت کیا گیا ہے۔ جن کی زندگی کارو کاری کے الزام سے بدنام ہوکر گزر رہی ہیں ۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسے واقعات کو قانون نافذ کرنے والے ادارے درج ہی نہیں کرتے۔

ہم نے ایسی واقعات پر یہاں کے پاکستان پپلز پارٹی سے ایم پی اے میر غلام عابد خان سندرانی سے رابطہ کیا تو انہوں کہا کہ خواتین کو ہمارے معاشرے میں بری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ جتنا حق مرد کا ہے، اتنا عورت کا ہے۔ ہمارے ان مذکورہ اضلاع میں کارو کاری کی رسمیں جہالت کی وجھ سے پیش آتی ہیں۔ اور یہاں کے لوگ اسے غیرت کا نام دے کر عورت پر ظلم کرتے ہیں۔ جس کے لئے پاکستان پپلز پارٹی کے منشور کے مطابق خواتین کو اپنے بنیادی حقوق دلوائے جائیں گے۔ اور ان کا تحفظ ہماری اولین ترجیحات میں سے ایک ہے ۔ کارو کاری کی رسموں میں قتل ہونے والی خواتین کو انصاف دلانےکے لئے ہم پوری کوشش کر رہے ہیں، اور پولیس کی جانب سے ایسی کارروائی میں ملوث ملزمان کے خلاف اسٹیٹ کے طرف سے مقدمات درج کئے جائیں گے۔

سول سوسائٹی کے رہنما مصطفی آکاش سے معلومات حاصل کرنے کہ لئے رابطہ کیا، تو اس معاملے پر انہوں نے کہا کہ یہاں پر غیرت کے نام کو اپنی انا سے لوگ نکال لیں، اور عورت کو عزت کی نگاہوں سے دیکھیں، تو شاید ایسی واقعات میں کمی آسکتی ہے ۔ بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ایک عورت جس کی کئی خوبصورت شکلوں کے کردار ہوتی ہے۔ ماں کی شکل میں ہمارے لئے وہ جنت کا مقام ہوتی ہے، بیوی کی شکل میں ہمارا سہارا بنتی ہے۔ بہن کی شکل میں ایک خوبصورت دوستی کا رشتہ نبہاتی ہے۔ مگر یہاں کے لوگ ایسی عورت پر ایسا گہناونہ الزام لگا کر تشدد اور قتل کے بھینٹ چاڑھ دیتے ہیں ۔ نہایت ہی افسوس ہوتا ہے۔ ہم سندھیوں میں آخر عورت کو آزادی کیوں نہیں دی جاتے۔ اگر عورت اپنی پسند سے شادی کرے، اور انہیں یے اجازت دی جائے، اس کو مردوں جتنے حقوق دیئے جائیں، تو کارو کاری کی رسمیں ختم ہوسکتی ہیں۔

اس حوالے سے ہم نے سندھ کے قوم پرست رہنما کامریڈ عباس باجکانی سے معلومات حاصل کی، تو انہوں نے کہا کہ حوا کی بیٹی کو آزادی ملنی چاھئے، اور سندھ میں کارو کاری جیسی رسومات کو ختم کرنے کہ لئے ایک قانون نافذ ہونا چاھئے۔ جس میں جتنا حق مردوں کا ہو، اتنا حق عورتوں کو ملنا چاھئے، مگر سندھ میں ایسا نہیں ہوتا۔ جس کی وجھ سے حوا کی بیٹیوں کو ایسی گھناؤنی رسومات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک تو عورتوں کی پسند سے شادیاں نہیں ہوتی، دوسرا پھر انہیں بولنے کی اجازت نہیں ملتی۔ ہمیں سوچنا چاہئے، عورتوں کے حقوق دلوانے کہ لئے آواز بلند کرنی چاھئے، ہم اپنے معاشرے کو بہتر بنانے کے لئے ایسی رسومات سے باھر نکلنا چاھتے ہیں، تو ہم خود کی سوچ کو تبدیل کریں۔ کارو کاری کی رسومات کے خلاف کارروائی ہونے چاھئے۔ یہاں پر تو لوگ جائیداد کے معاملے پر جھگڑا کرتے ہوئے، مخالفین پر ایک آسان سا الزام سمجھ کر انہیں کارو کاری کا الزام دے دیتے ہیں، اور اپنی بیویوں کو اس کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔ انسانیت کے ناتے پر ہمارے معاشرے میں رہنے والوں کو سوچنا چاھئے، اور ایسے غلط الزامات کو انا نہ بنائیں، اپنے سوچ کو بڑا کریں، تو ایسی رسومات کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے ۔

پاکستان کے آرٹیکل 27 کے مطابق مرد اور خواتینوں کے حقوق کو پامال کرنے پر اسٹیٹ خود ان کی فریادی بن کر ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ارکان کو چاھئے کہ کارو کاری کے خاتمے کہ لئے آرٹیکل 27 کے مطابق عمل در آمد کروا کے خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کو روکا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).