بشارت یا عذاب کا موسم


\"zeeshanتین خبریں ہیں آئیے ان سے کچھ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں –

مصدقہ خبر ہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت ( تحریک انصاف ) نے مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے لئے تین سو ملین روپے سالانہ امداد کا اعلان کیا ہے۔ یہ رقم مدرسہ کے روز مرہ اخراجات کے لئے دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس امداد کا دفاع کیا۔ آئیے ایک نظر مدرسہ کی کارکردگی پر ڈالتے ہیں۔

-اس مدرسہ کی دنیا میں شہرت یونیورسٹی آف جہاد کی ہے جہاں تقریبا نوے فیصد افغانی و پاکستانی جہادی عناصر کی قیادت نے تعلیم حاصل کی ہے۔ جن میں ملا عمر، ملا منصور، جلال الدین حقانی، اور عاصم عمر سمیت سینکڑوں صف اول کے جہادی شامل ہیں۔ اس مدرسہ کے مہتمم مولوی سمیع الحق کو بابائے طالبان کہا جاتا ہے۔

-ایف آئی اے کی رپورٹس کے مطابق بے نظیر بھٹو پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی سازش یہاں بیٹھ کر ترتیب دی گئی

– نیشنل ایکشن پلان کی شق 6 اور 8 کے مطابق ایسے مدرسے کو کسی بھی حکومت (صوبائی و وفاقی ) کی طرف سے مالی امداد نہیں دی جا سکتی۔

– تین سو ملین روپے کی یہ امداد اقلیتوں کے لئے مخصوص فنڈ میں کٹوتی کر کے دی گئی ہے۔

– جب وزیراعظم نواز شریف نے لبرل پاکستان کا عندیہ دیا تھا تو اسی مدرسے سے باقاعدہ دھمکیاں دی گئی تھیں۔

– مدرسہ حقانیہ ایک پرائیویٹ ادارہ ہے، یہ نہیں بتایا گیا کہ آخر کس قانون کی رو سے ٹیکس دہندگان کی رقم کو اس طرح خرچ کیا جا رہا ہے ؟

-آخر خیبر پختونخواہ حکومت نے کس بنیاد پر پورے صوبے میں اس مدرسے کو مالی امداد کے لئے منتخب کیا اور وہ کیا مقصد ہے جو حکومت حاصل کرنا چاہتی ہے ؟

یاد رہے کہ یہ واقعہ اسی صوبے میں ہوا ہے جس کے سینے پر آرمی پبلک سکول پشاور جیسے زخم ابھی تازہ ہیں۔

دوسری خبر امجد صابری سے متعلق ہے جنہیں کراچی لیاقت آباد میں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان حکیم اللہ محسود گروپ نے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ انہوں نے گستاخی کی تھی۔ ان کی قوالی پر اعتراض کیا گیا ہے۔ یہ وہ کون عناصر ہیں جو سر، گیت، خوشی، اور تفریح کے دشمن ہیں ؟ پورا ملک جانتا ہے۔ طالبان کون ہیں؟ ان کی شناخت اب ہمارے لئے اجنبی نہیں رہی۔ ستم یہ ہے کہ آج بھی تکفیری گروہوں کو ہیئت مقتدرہ کی سرپرستی حاصل ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خرم زکی کے قتل سے لے کر اب تک تیس کی تعداد میں انسانی حقوق کے کارکن اور شیعہ و احمدی شناخت سے تعلق رکھنے والے افراد کو باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ میں قتل کیا جا چکا ہے۔ آرمی پبلک سکول سانحہ کے بعد ریاستی اداروں نے عوام سے جس لب و لہجہ میں دہشت گردی کے خاتمہ کا وعدہ کیا تھا تب امید کی شمع ٹمٹمائی تھی کہ شاید زخموں سے چور ہمارے قومی وجود کے کرتا دھرتا اپنی ناکامیوں کا ازالہ کرنے میں سنجیدہ ہیں، مگر اس امید کی روشنی پر اب پھر سے مایوسی کے اندھیرے جھپٹنےکو بے تاب ہیں۔

تیسری خبر نہیں بلکہ ناکامیوں کا ایک پورا اظہاریہ ہے۔ پاکستان اس وقت دنیا میں تنہا ہو چکا ہے۔ ہم نے اپنی فارن پالیسی میں دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں ہم شاید فارن ایڈ لینے والے اتحادی ہیں۔ ہمیں ڈرون طیاروں کی ہماری سرحد کے اندر کاروائی پر شدید رنج و غصہ ہے ان ڈرون پر جو کسی دور میں ہمارے ہی ملک سے اڑ کر ہمارے ہی ملک میں کارروائی کرتے تھے اور جب وہ ملک کے شمالی علاقہ جات میں ریاستی آمرانہ پالیسیوں کے پھندوں میں قید مظلوم پختونوں پر بمباری کرتے تھے اور ہماری ہیئت مقتدرہ \”مور ڈرون مور ڈرون\” کا مطالبہ کرتی تھی تب تو سب خیر تھی مگر تحریک طالبان افغانستان کے امیر ملا منصور کی پاکستان میں موجودگی کے دوران ان پر کیا گیا ڈرون حملہ ہماری قومی سلامتی اور حق خود ارادیت پر حملہ ہے۔ ایسی منافقت چہ معنی؟

ہماری ہیئت مقتدرہ دنیا کو بھی ویسا ہی موم کی ناک سمجھتی ہے جیسے اپنے ملک کے عوام کو۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کے اخلاق کی گواہی اس کے ہمسایہ ہیں۔ ہمارے تین ہمسائے ہم سے صرف خفا نہیں بلکہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ مغربی اتحادی جو فارن ایڈ اور فوجی امداد کی شکل میں ہیئت مقتدرہ کو طاقت دیتے آئے ہیں، پاکستان سے ناراض ہیں۔ ہم نے اپنی اس فارن پالیسی کی ناکامی کا الزام کس پر لگایا ہے؟ حسین حقانی پر، کہ وہ امریکہ میں بیٹھ کر ہمیں صحیح لابیئنگ نہیں کرنے دے رہے۔ حسین حقانی کا جواب فارن پالیسی کے آقاؤں کے منہ پر تمانچہ ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔

\”پاکستان کے امریکہ سے تعلقات میں مشکلات کی وجہ اس کی برسوں سے جہادیوں کی حمایت اور اس پر بہانے بنانا ہے کہ اس سے امریکی بہت کم متاثر ہو رہے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نیٹ ورک نہیں قائم کیا تھا، اور نہ ہی افغانستان میں امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے والے طالبان کی حمایت کی اور نہ ہی اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے جانے والے گروپوں کو کھل عام سرگرمیوں کی اجازت دی، تو اس میں ایسا کوئی نکتہ نہیں کہ مجھے ان پالیسیوں کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور نہ ہی میں یا دوسرا کوئی سفیر اسامہ بن لادن کے واقعے کا ذمہ دار ہے۔‘\” اس فارن پالیسی کی ناکامی کی ذمہ دار بھی یہی ہیئت مقتدرہ ہے نہ کہ کوئی اکیلا فرد۔

یہ پورا منظر نامہ ہمیں خوفزدہ کر دیتا ہے۔ یہ جو آرمی پبلک سکول سانحہ کے بعد بیانیه بدل گیا بیانیہ بدل گیا کی گونج تھی، اس وقت بھی خاکسار نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ یہ سب فی الحال ممکن نہیں لگ رہا ہے۔ ہیئت مقتدرہ کی گرفت ہنوز مضبوط ہے، اب بھی معصوم شہریوں کے قتل عام کو کولیٹرل ڈیمیج سمجھا جاتا ہے، اور اب بھی جہادی عناصر ریاست کے فارن پالیسی اثاثوں کا کام دے رہے ہیں۔ تبدیلی کے دور دور تک آثار نہیں۔ سویلین اقتدار جس سے ہم امیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ شب خون کی مسلسل سازشوں کے سبب ہیئت مقتدرہ کے حضور سرنگوں ہے۔ مگر صرف ایک امید ابھی زندہ ہے وہ یہ کہ مستقبل پر کسی کی اجارہ داری اور قبضہ و کنٹرول نہیں۔

قفس ہے بس میں تمہارے، تمہارے بس میں نہیں

چمن میں آتشِ گل کے نکھار کا موسم

صبا کی مست خرامی تہِ کمند نہیں

اسیرِ دام نہیں ہے بہار کا موسم

بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے

فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم

 

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments