پنجابی ڈیم، سندھی فُول


آجکل ٹی وی پر ایک اشتہار بار بار دکھایا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے دیامیربھاشا ڈیم بنانے کے لئے فنڈ قائم کیا ہے جس میں تمام پاکستانیوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ پیسے جمع کروائیں۔ سنا ہے سپریم کورٹ اس فنڈ میں پیسے اکھٹے کرنے کے لئے کچھ نئے ٹیکس لگانے پر بھی غور کر رہی ہے۔ ایسے ہی ایک اشتہار میں نوجوان بچے کہتے نظر آتے ہیں کہ ڈیم پاکستان کے لئے ناگزیر ہیں، اگر فوری طور پر ڈیم نہ بنائے گئے تو عنقریب تمام پاکستانی پیاسے مر جائیں گے۔ ایسا شاید وہ ان الفاظ میں تو نہیں کہتے، مگر مجھے ان کی اشتہاری باتیں سن کر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔

بہت سے لوگ اس بات پر بہت خوش ہیں۔ ان باتوں پر۔ اس بات پر کہ ڈیم بننے لگا ہے اور اس بات پر بھی کہ چیف جسٹس آف پاکستان یہ ڈیم بنا رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس بات پر ناراض بھی ہیں۔ ان باتوں پر۔ اس بات پر کہ ڈیم کیوں بن رہا ہے؟ اور اس بات پر بھی کہ آخر چیف جسٹس صاحب کیوں ڈیم بنا رہے ہیں؟ چیف جسٹس صاحب نے کہہ رکھا ہے کہ ان کو لگتا ہے کہ ڈیم بنانے کی مخالفت کرنے والے کے خلاف پاکستان سے غداری کا مقدمہ چلنا چاہئے، اس لئے میں تو اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لوگ البتہ باز نہیں آتے۔ عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لاکھوں مقدمے عدالتوں میں التواء میں پڑے ہیں، اور سالوں سے پڑے ہیں، چیف صاحب کو ان پر توجہ دینی چاہئیے۔ زیریں عدالتوں کا نظام بہتر کرنا چاہئیے، جس کے لئے ان کو امیر اور غریب پاکستانیوں کے ٹیکسوں سے تنخواہ اور مراعات ملتی ہیں۔ جب وہ یہ کام کر چکیں تو ضرور ڈیموں کی طرف بھی توجہ دیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ ڈیم ایک بہت بڑا منصوبہ ہوتا ہے اور اس کے بنانے میں بہت بڑی رقم لگتی ہے، کئی بار ہزاروں کروڑ روپے، اس لئے بڑی بڑی تعمیری کمپنیاں اور پارٹیاں ڈیم بنانے کی ضرورت پر ضرورت سے زیادہ زور دیتی ہیں۔ ایسے غدار قسم کے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پچھلے تیس سالوں میں دنیا کے بہت سے ممالک نے ڈیم بنانے بند کر دیے ہیں، بلکہ وہ تعمیر شدہ ڈیم توڑ رہے ہیں۔ صرف امریکہ میں سینکڑوں ڈیم توڑ دئیے گئے ہیں کیونکہ یہ مہنگے ہوتے ہیں، پانی کا بے حد ضیاع کرتے ہیں اور دریا کے بہاؤ میں پانی کی شدید قلت پیدا کر کے ڈیم سے اگلی زمین تباہ کر دیتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کا سب سے موئثر ذریعہ زیرزمین پانی کو ڈیم کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ یہ ذریعہ قدرتی بھی ہے اور سستا بھی، اور ساری دنیا میں پزیرائی بھی پا رہا ہے۔

ستمبر 2018 میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک ریزولوشن پاس کی کہ دریائے سندھ پر کوئی بھی ڈیم سندھ کے عوام کی مرضی کی بغیر بنانا آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ پر تربیلا ڈیم اور بہت سے بیراج بنا کر اس کے پانی کا بہاؤ ایک تہائی سے بھی کم کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہر سال سمندر کا پانی اوپر کو زمین کی طرف چڑھتا آتا ہے۔ پچھلے پچاس سالوں میں صوبہ سندھ کی ہزاروں ایکڑ اراضی سمندر اسی وجہ سے کھا چکا ہے۔ اس میں ٹھٹھہ، سجاول اور بدین کے اضلاع کی زمینیں خاص طور پر شامل ہیں۔ ریزولوشن میں یہ بھی کہا گیا کہ دریا کا پانی سمندر میں گرنا پانی کا ضیاع نہیں بلکہ سندھ کے لوگوں کی زندگی ہے۔ سندھ میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دریائے سندھ پر، صوبہ سندھ کے عوام کی مرضی کے بغیر کوئی بھی ڈیم بنانا یا اس سے نہر نکالنا ، ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ان کا گلہ ہے کہ دریائے سندھ پر پنجاب کے علاقوں میں ڈیم بنا کر سندھ کا پانی پنجاب کے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے مگر اس سے جنوبی سندھ کے علاقے پانی کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ستمبر 2018 میں ہی وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ تربیلا ڈیم کے بننے سے پہلے سندھ کے ڈیلٹا میں بہت پانی آتا تھا جس پر سینکڑوں قسم کی زمینی اور آبی حیات کی زندگی کا دارومدار ہے۔ پانی کم ہونے سے یہ حیات خطرے میں پڑ چکی ہے اور مزید کمی سے مر جائے گی۔

غدار قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ آج سندھ ڈیلٹا کے جنگلات کے دو تہائی ختم ہو چکے ہیں۔ پانی کی کمی کی وجہ سے جنگلات اور جھیلوں میں کمی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں سندھیوں کا روزگار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ مگر ٹی وی پر سرکاری اشتہارات چل رہے ہیں کہ ڈیم نہ بنا تو پاکستان پیاسا مر جائے گا۔ پاکستان بچنا چائیے، غداروں کا کیا ہے، مرنے دیتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).