قیامِ امن کے لیے جنگیں بہت ضروری ہیں


”قیامِ امن کے لیے جنگیں بہت ضروری ہیں“۔ ہیں! کیا کہا؟ قیامِ امن کے لیے جنگیں ضروری ہیں۔ آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ کیسی واہیات بات کردی میں نے۔ بھلا جنگ بھی کبھی امن کی ضمانت ہوسکتی ہے۔ اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ جملہ یقیناً کسی ایسے شخص کا تحریر کردہ ہے جسے خبر نہیں ہے کہ جنگوں کی تباہ کاری کیا ہوتی ہے۔ شاید ایسا ہی ہو، شاید میں واقف نہیں کہ جنگوں کی تباہ کاری کیا ہوتی ہے کہ میرے ملک پر براہ راست جنگ مسلط نہیں ہوئی۔

لیکن میں اس ریاستِ پاکستان کے شہر کراچی کا باشندہ ہوں جو کہ گزشتہ اٹھارہ سال سے حالتِ جنگ میں ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ جنگ سرحدوں پر نہیں بلکہ ہمارے شہروں اور بازاروں میں لڑی گئی ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ دو دہائیوں سے جاری اس جنگ میں اب تک صرف پاکستان نے مجموعی طور پر 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے اور یہ جانی نقصان افغانستان اور عراق سے زیادہ ہے جہاں جنگ براہ راست لڑی گئی، اور یقیناً فاٹا اور خیبر پختونخواہ کی طرح کراچی نے بھی۔

اب آپ پوچھیں گے کہ یہ سب جاننے کے باوجود بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ جنگ قیام امن کے لیے ضروری ہے۔ جی ہاں! میں ابھی بھی اس بات پر قائم ہوں جسے آپ شاید مفروضے کا نام دیں کہ جنگ، قیام امن کے لیے ضروری ہے اورا س کو ثابت کرنے کے لیے آپ کو میرے ساتھ ماضی میں سفر کرنا ہوگا۔

کیا آپ نے سنہ 2001 کے ستمبر سے پہلے کی دنیا اپنے ہوش و ہواس میں دیکھی ہے، اگر دیکھی ہے تو آپ کو یاد ہوگا کہ امریکا اور روس کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری سرد جنگ اختتام پذیر ہوچکی تھی اور بائی پولر کے بجائے یونی پولر دنیا بن چکی تھی۔ جنگوں کے ایک دور سے لے کر نائین الیون کے بعد شروع ہونے والے دوسرے دور کے اس درمیانی وقفے میں دنیا کے بہترین دماغ مستقل قیام امن کا فارمولہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

یاد رہے کہ یہ فارمولا یورپ کئی دہائیوں پہلے تلاش کرچکا ہے اور اب یورپ کے کوئی بھی دو ممالک آپس میں دست وگریباں نہیں ہیں۔ یہ وہی یورپ ہے جس نے سات سالہ جنگ، تیس سالہ جنگ، سو سالہ جنگ اور اس کے بعد جنگِ عظیم اول اور دوئم کی صورت دنیا کا امن ایک طویل عرصے تک تباہ و برباد رکھا تھا۔ لیکن اب وہاں بریگزٹ جیسا معاملہ بھی انتہائی سکون سے طے پارہا ہے، کوئی کشتِ خون نہیں کوئی مارا ماری نہیں، رہنماؤں کے اجلاس ہوتے ہیں اور معاہدے تشکیل دیے جاتے ہیں۔

خیر تو ہم کہہ رہے تھے کہ جب دنیا عالمی امن کے لیے کوئی فارمولا تلاش کررہی تھی اور ایسے ماحول میں امریکا بہادر سوچ رہا تھا کہ اب جبکہ دنیا پر سے کسی بڑی جنگ کا سایہ ہٹ چکا ہے، تو اس ماحول میں اس کی جنگ جو افواج جس کا شمار دنیا کی سب سے بڑی آرمی میں ہوتا ہے وہ آرمی اب کیا کرے گی، اور اس کی معیشت جس کا دارومدا ر اسلحے کی صنعت پر ہے، اس کا کیا ہوگا؟ یہ وہ سوال تھے جو کہ امریکی پالیسی سازوں کے سرپر کسی بھیانک خواب کی طرح منڈلا رہے تھے۔

ذرا تصور کریں ایک ایسا معاشرہ جس کی معیشت جنگیں نہ ہونے کے سبب روز بروز گرتی جارہی ہو اور اس کے انتہائی تربیت یافتہ فوجی جنگ نہ ہونے کے سبب بے روزگار ہورہے ہوں۔ امریکا نے اپنا مستقبل خطرے میں دیکھا اور پوری دنیا میں جنگ کے شعلے بھڑکا دیے، یقیناً یہ ایک طویل مدتی منصوبہ ہے جس کے سبب کئی دہائیوں تک دنیا میں جنگ کے شعلے بھڑکتے رہیں گے، لیکن دور الگ تھلک ہونے کے سبب سب سے زیادہ محفوظ رہے گا، یعنی امریکا دنیا بھر میں جنگیں لڑرہا ہے لیکن ان کے اپنے ملک میں امن قائم ہے اور فی الحال رہے گا۔

اب اسی سارے تنازعے میں دیکھتے ہیں پاکستان اور بھارت کو۔ دونوں ممالک نے اپنی ازلی دشمنی کے سبب طاقتور فوجیں بنائیں اور اس کے بعد مرحلہ وار جنگی مہارتیں حاصل کرتے ہوئے ایٹمی طاقت بن گئے۔ ایٹمی قوت کے سبب دونوں ممالک کے جنگی منصوبہ ساز سمجھتے ہیں کہ باہمی جنگ ایک بڑی قیامت کا پیش خیمہ بن سکتی ہے لہذا دونوں جانب سے چھیڑ چھاڑ توہوتی ہے لیکن باقاعدہ جنگ کے لیے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ بندوق بردار برے شخص کو روکنے کے لیے بندوق تھامے اچھے شخص کا وجود لازمی ہے۔ اسی کلیے کے تحت ہم نے افواج بنائیں اور جب برے شخص کا اندیشہ ختم ہوگیا تو بندوق تھامے ہمارا ’اچھا شخص‘ میدان میں کھڑا سوچ رہا ہے کہ وہ اب کیا کرے۔

یہی سو چ وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں سے اس تحریر کا آغاز ہوتا ہے کہ امن کے قیام کے لیے جنگیں ناگزیر ہیں۔ یورپ کئی خونی جنگیں لڑکر سمجھ چکا ہے کہ میدانِ جنگ کا اپنی سرحدوں سے دور ہونا بے حد ضروری ہے لہذا پورے یورپ میں اب کوئی میدانِ جنگ موجود نہیں او ر فرانس اور جرمنی جیسے حریف بھی اب یورپی یونین کے پلیٹ فارم سے ایک ہوکر معاشی عظمت کا سفر طے کررہے ہیں۔ برطانیہ کو اگر لگتا ہے کہ یونین میں رہنے کے سبب اس کی معاشی ترقی کی رفتار سست ہے تو اسے بھی اس بات کا بھرپور موقع دیا جارہا ہے کہ وہ معاہدوں کے ذریعے یونین سے علیحدگی اختیار کرلے۔

ہماری افواج کے سامنے اس وقت سوال یہ ہے کہ اگر کوئی محاذِ جنگ نہیں ہے تو پھر وہ کس لیے ہیں، یہی سوال ایک جانب انہیں ’آئیڈیاز‘ جیسے مثبت معاملات کی جانب لے کر گیا ہے تو دوسری جانب سی پیک کی حفاظت بھی ایک اہم کام ہے جسے افواج نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ آج ہم نے کرتار پور راہداری کے ذریعے یہ سمجھا کہ پاکستان کی فوج اپنے مستقبل کے اہداف طے کرچکی ہے اور اب ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ اپنے وجود کو یقینی بنائے رکھتے ہوئے فوج کے پالیسی میکرز دیگر ممالک کے ساتھ کس طرح کے تعلقات استوار کرنے کی پالیسی کو لے کر سول حکومت کے ساتھ آگے بڑھیں گے، یہاں آپ مجھ پر الزام عائد کرسکتے ہیں کہ میں فوج کو سول معاملات میں مداخلت کا مورد الزام ٹھہرا رہا ہوں تو مجھے بتائیے کہ وہ کون سی فوج ہے جو سول معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔

پاکستان اور بھارت آپس میں کئی جنگیں لڑچکے ہیں اور موجودہ سیاسی منظر نامے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ قیام امن کے لیے جو جنگیں انتہائی ضرور ی ہوتی ہیں، ہماری فوج وہ جنگیں لڑچکی، اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت جہاں الیکشن کا ماحول سجا ہے ( بھارت میں الیکشن پاکستان دشمنی کی بنیاد پر لڑا جاتا ہے ) وہاں کی فوج اس سارے منظر نامے پر کس طرح سے ردعمل دیتی ہے، آیا ان کے جنگ لڑنے کے ارمان پورے ہوچکے یا ابھی کچھ باقی ہیں، ان کا ردعمل ہی ہمیں بتائے گا کہ خطے میں قیام ِ امن کے لیے فی الحال کوئی جنگ ضروری ہے یا نہیں۔
Nov 29, 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).