غزالاں تم تو واقف ہو، نہ جنوں رہا نہ پری رہی


غیبت کے مابعد الطبعیاتی تناظر میں کچھ ایویں ہی باتیں

یہ ہسپتال کا ویٹنگ ایریا تھا۔ میری بالکل ساتھ والی کرسی پر ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ اس کے بعد والی کرسی پر ان کی قدرے زیادہ بوڑھی والدہ بیٹھی تھیں۔ ان کے بعد ایک نوجوان لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ گفتگو سے اندازہ ہوا کہ لڑکی اسلام آباد میں ہی رہتی ہیں۔ سی ایس ایس کا امتحان پاس کر چکی ہیں اور سائیکلوجیکل ٹیسٹ کی منتظر ہیں۔ لڑکا والدہ کو غالباً راولپنڈی یا کم از کم گوجر خان سے لے کر آیا ہے۔ ابھی ان کا نمبر نہیں آیا تو انتظار میں ہیں اور آپس میں گفتگو کر رہے ہیں۔

لڑکا لڑکی سے پوچھتا ہے، آپ کا سی ایس ایس کرنے کے بعد کس گروپ جانے کا ارادہ ہے؟
لڑکی: میں پولیس میں جانا چاہتی ہوں۔

لڑکا، : کیوں؟ فارن سروس اچھا نہیں ہے؟
لڑکی: بس میرا پیشن (passion ) ہے پولیس میں جانا۔

لڑکا۔ ہاں۔ وہ پرسوں پولیس ایس پی نے کیا زبردست آپریشن کیا۔ نیوز میں دکھایا تھا۔ اچھا یہ فارن سروس میں سنا ہے فارن کے بڑے ٹور ہوتے ہیں؟
لڑکی: ہاں ان کی تو لائیف بہت سیٹلڈ (settled ) ہوتی ہے۔

لڑکا: اچھا یہ ڈائریکٹ سفیر بنا دیتے ہیں؟
لڑکی: نہیں دوسری پوسٹیں ہوتی ہیں۔

لڑکا: اور کون سی پوسٹیں ہوتی ہیں باہر کے ملک میں؟
لڑکی: یہ سیکریٹری وغیرہ۔

لڑکا: اچھا یہ جس کے کم نمبر آجائیں وہ کس جگہ جاتے ہیں۔
لڑکی: موسٹلی تو پوسٹل میں جاتے ہیں یا پھر آفس سروس میں۔

لڑکا: یہ آفس سروس کون سا والا ہے؟
لڑکی: یہ سامنے والے سیکریٹریٹ میں۔

لڑکا: اچھا یہ پرائم منسٹر سیکریٹریٹ؟ (لڑکی نے درستی کی کوشش نہیں کی)
لڑکی: جی جی

لڑکا: واہ۔ مگر کیوں؟ کم نمبر والے تو زیادہ خوش ہوں گے ؟
لڑکی: کیوں؟

لڑکا: بھئی پرائم منسٹر سیکریٹریٹ میں بندہ ہو تو اس کے تو پورے ٹور ہوتے ہوں گے۔ ایک فون کسی بھی کھڑکا دو۔ (یہاں اسے احساس ہوا کہ وہ ایک سی ایس ایس پاس، خوبصورت، متوقع پولیس افسر سے بات کر رہا ہے ) میرا مطلب ہے جائز کام تو منٹوں میں کر دیتے ہوں گے۔
لڑکی ہاں یہ تو ہے۔

لڑکا۔ یہ کتنے گریڈ تک لگاتے ہیں۔
لڑکی: (سوال غلط سمجھ کر ) اکیس تک جا سکتا ہے بندہ۔

لڑکا: (یہی غلط جواب مزید غلط سمجھتے ہوئے ) اچھا تو ڈائریکٹ اکیس گریڈ میں لگاتے ہیں؟
لڑکی: نہیں نہیں۔

اس گفتگو کے بیچ میرے ذہن میں کچھ خیالات چل رہے تھے مگر یہ تحریر لکھتے ہوئے میرے ذہن کچھ اور خیالات چل رہے ہیں۔ پہلے اس آخری مسئلے پر غور کرتے ہیں۔

یہ مسئلہ یوں ہے کہ تحریر لکھتے وقت میرے ذہن میں خیال آ رہا ہے کہ، ہمارے ہاں فیمنسٹ اور لبرل ڈسکورس کم ازکم علمی سطح پر موجود نہیں تاہم یہاں معاشرتی سطح پر آواز کی حد لبرل اور فیمینسٹ کینوس کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا خاکہ ضرور موجود ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس کینوس کا دائرہ بہت حد تک پھیل چکا ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ کوئی بھی سماجی نظام بہرحال اپنی حقیقت میں اس بات پر مجبور کہ وہ اس سماج (جہاں اس نے جنم نہیں لیا) کے کچھ سماجی اور اخلاقی اقدار پر کوئی نہ کوئی سمجھوتہ کر لے۔ یا کم ازکم سمجھوتے کے نام پر خاموشی اختیار کر لے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ یہاں ان میں سے جو کچھ بھی موجود ہے اس کے مبلغین ( کمنٹیٹر کا مفہوم مراد ہے ) نے ان کا دائرہ اس ”لازمی سمجھوتے“ سے باہر سمجھ لیا ہے۔ اور وہ اس جائز تنقید کو (جو ابھی یہاں صرف اکیڈمک حد پر ممکن ہے ) عوامی سطح تک لے آئے گئے ہیں اور اسے پبلک ڈومین کا لازمی حصہ سمجھنے لگے ہیں۔

گویا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تحریر لکھتے ہوئے مجھے بار بار یہ خیال ستا رہا تھا کہ میں پوسٹ ماڈرن صورت حال میں لبرل اور فیمنسٹ نقطہ نظر ( perspective ) جو بہت وسیع ہے، کی کہیں خلاف ورزی تو نہیں کر رہا؟ مثلاً کیا مجھے ایسے سوالوں کا سامان کرنا پڑ سکتا ہے کہ، کیا ان کی گفتگو سننا اخلاقی طور پر درست تھا؟ (بھلے میں ساتھ بیٹھا ہوا تھا) یا، کیا ان کی گفتگو کو رپورٹ کرنا اخلاقی طور پر درست ہے؟ (گو کہ میں نے ان کی کسی شناخت کو مبہم طریقے سے بھی واضح کرنے کی کوشش نہیں ) ، یا کیا ان کے بارے میں ججمنٹل ہونا درست ہے؟ یا میں کون ہوتا ہوں اخلاقی پولیس کا رول ادا کرنے والا وغیرہ وغیرہ۔

میرے پاس دو آپشن تھے، پہلا یہ کسی نامعلوم اخلاقی آدرش کا پالن کرتے ہوئے میں مجھے سرے یہ بات لکھنی ہی نہیں چاہیے تھی۔ دوسرا یہ کہ ایک بات میرے ذہن میں آئی جس نے ہسپتال جیسی جگہ میں مجھے محظوظ کیا تو مجھے اس کو لکھ لینا چاہیے۔ سو لکھ دیا۔

اب ہے دوسرا قضیہ، ان کی گفتگو سنتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال بار بار آتا رہا کہ کسی موقع پر مجھے اٹھ کر لڑکے کی امی کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ جانا چاہیے اور ان سے پوچھنا چاہیے کہ، ”اماں جی! کیا یہ بچپن سے ہی اتنے فضول سوال پوچھتا رہتا ہے؟“

دوسرا خیال یہ آیا کہ میں اٹھتے سمے اس لڑکے کو کہوں کہ ”یار آپ اخبار تو پڑھا کریں“۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے من ہی من اس کو مسترد کر دیا اور دوسرا جملہ یوں بنایا، ”بھائی آپ یوگا تو کر لیا کریں۔ اس سے دماغی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے“۔ اور چلتا بنتا۔

اس سے پہلے کہ میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مجھے ان دونوں میں سے کیا کام کرنا ہے یا کوئی ایک بھی کرنا ہے یا نہیں، ان کی باری آ گئی اور وہ ڈاکٹر کے پاس چلے گئے۔
اب رات کے اس پہر بھی اک خلش سی ہے۔ اور میرا دل چاہتا کہ میں اس تحریر کے اختتام پر دو الگ الگ اشعار کے آدھے آدھے جملے لکھوں کہ
غزالاں تم تو واقف ہو، نہ جنوں رہا نہ پری رہی

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah