انسانوں کے چہروں پر روحانی خوشی کے دلفریب مناظر


پاکستان میں کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ بہترین انسانی رویوں کا مظاہرہ ہوا۔ عمران خان صاحب، سدھو صاحب، شاہ محمود قریشی صاحب نے مفکرانہ تقریریں کی۔ پاکستان اور بھارت کے دوستانہ تعلقات پر زور دیا گیا۔ یہ سب کچھ ہم انسانوں نے دیکھا۔ کرتاپور کوریڈور کو لے کر تبصرے اور تجزیے بھی ہورہے ہیں اور ہم یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں۔ بھارتی اور پاکستانی میڈیا کے درمیان بلیم گیم بھی شروع ہوچکی۔ یہ سب کچھ اگلے کئی ماہ تک جاری رہے گا۔

انسانوں کے چہروں پر جو الہامی خوشی کے دلفریب مناظر نظر آرہے تھے، دل چاہتا ہے کہ آج اس پر بات کرتا رہوں۔ لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ آج الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے۔ سچ کہتے ہیں انسانی تاریخ میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ روز کرتار پور کوریڈور تقریب انسانی تاریخ کے حوالے سے ایک اہم واقعہ تھا۔ امن، محبت، پیار، دوستی اور انسانیت کے سفیر نوجوت سنگھ سدھو کے چہرے پر دلفریب الہامی خوشی لاجواب تھی۔ تقریب کے دوران میں اس انسان کا چہرہ دیکھتا رہا اور میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلکتے رہے۔

عمران خان صاحب جب سدھو صاحب اور بھارتی پنجاب کی خاتون وزیر کا خطاب سن رہے تھے تو اس وقت پہلی مرتبہ ایسا محسوس ہوا جیسے یہ انسان امن، انسانیت اور محبت کا سب سے بڑا سفیر ہے۔ سدھو صاحب کی جذباتی خطاب کے سچے صوفیانہ خیالات دل کو چھو گئے۔ سدھو کی آنکھیں نم تھی۔ خطاب کے دوران ان کا چمکتا دمکتا چہرہ یہ گواہی دے رہا تھا کہ وہ کسی قسم کی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کررہے۔ بھارتی خاتون وزیر کے آنسو سے مزین خیالات سن کر ایسے لگا جیسے انسانیت اس دھرتی پر اپنی اصلی اور حقیقی انداز میں زندہ ہوگئی ہے اور خوشی سے محو رقصاں ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے جب جناح صاحب کی گیارہ اگست کی تقریر کا حوالہ دیا تو دل و دماغ خوشیوں سے مہک اٹھا۔ انسانیت سے مزین رویے چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے تھے کہ ہم سب انسان ہیں۔ ایسے انسان جو جنگ و جدل، نفرت، تعصب، انتہاپسندی، دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے تنگ آچکے ہیں۔

کرتار پور راہداری کے سنگ بنیاد کی تقریب کے مناظر دیکھ کر مجھے یقین ہوچلا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکر ات بحال ہوں گے۔ ان کے درمیان دوستی اور امن کا ایسا دور شروع ہوگا کہ دنیا اس کی مثالیں دیا کرے گی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ماضی کی زنجیریں ٹوٹیں گی۔ مودی اور عمران نہیں تو کوئی اور لیڈر شپ بہت جلد پاکستان اور بھارت میں نمودار ہوگی جو تمام نفرتیں اور تعصبات کا خاتمہ کرے گی۔ تقریب کے الہامی جذبات واضح کہہ رہے تھے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب دونوں ملک میں ایک بھی سیاستدان یا جرنیل بلیم گیم یا پوائنٹ اسکورنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ امن کی خواہش رکھنے والے سفیروں کاخواب پورا ہوگا۔

جب سے عمران خان وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں، میں ہمیشہ ان کا ناقد رہا ہوں۔ ان تین ماہ کے دوران مجھے ان کی ایک بھی تقریر، بیان یا خطاب پسند نہیں آیا۔ لیکن گزشتہ روز کی ان کی تقریر بہت پسند آئی۔ شاعرانہ انداز میں انہوں نے کہا کہ وہ آج سکھ بھائیوں کے چہروں پر خوشی دیکھ کر بہت خوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے مسلمان مدینے سے چار کلومیٹر دور ہوں اور ان پر پابندی ہو کہ وہ مدینہ داخل نہیں ہوسکتے اور پھر اچانک پابندی اٹھ جائے۔ وہ خوشی جو اس وقت مسلمانوں کو محسوس ہوگی، وہی خوشی وہ آج سکھ بھائیوں اور بہنوں کے چہروں پر دیکھ رہے ہیں اور خوش ہورہے ہیں۔

عمران خان کا یہ کہنا بھی دل کو چھو گیا کہ وہ بطور وزیر اعظم، پی ٹی آئی، تمام سیاسی جماعتیں اور فوج ایک پیج پر ہیں اور ہم سب امن چاہتے ہیں۔ پہلی مرتبہ عمران خان صاحب ایک مدبر سیاستدان محسوس ہوئے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کا یہ فرمانا کہ اگلے سال بابا گرونانک کی 550 ویں سالگرہ شاندار انداز میں منائی جائیں گی، یہ بات بھی اس قدر سچائی کے رویے سے کی گئی کہ دل باغ و بہار ہوگیا۔ شاہ محمود کا گیارہ اگست کی تقریر کا حوالہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان اب اپنا بیانیہ بدل رہا ہے۔ پاکستان امن، محبت، انسانیت کا خواہش مند ہے۔

بھارت کی مودی سرکار اور پاک فوج سے بس اتنی التجا ہے کہ وہ اس گرم جوشی، الہامی جذبات کو سمجھیں اور دوستی کو آگے بڑھائیں۔ پاکستان اور بھارت کی دوستی کے لئے سجائی گئی اس تقریب کو میڈیائی پروپگنڈے کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).