تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔۔۔۔۔


سو دن کسی حکومت کی کارکردگی جانچنے کا سفاک اوربے رحم معیار ہوسکتاہے مگر یہ کارکردگی اتنی بھی نادیدہ، بے صوت اور غیر محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ وزیرِ اعظم، وزرا اور اس کے حامیوں کو اسے دکھانے کے لیے لمبی لمبی بے ربط تقریریں کرنا پڑیں۔ اس موضوع پر بات کرنے سے قبل بہتر ہے کہ اس حکومت کے ان اہداف کا ذکر کر لیا جائے جو عمران خان نے سو دن قبل مقرر کیے تھے۔ یاد رہے کہ یہ اہداف اس حکومت نے خود ہی بغیر کسی بیرونی سیاسی دباؤ کے مقرر کیے تھے۔

پہلا ہدف پانچ سال کے دوران ایک کروڑ ملازمتوں کی فراہمی کے لیے جامع، ٹھوس اور قابل عمل حکمت عملی مرتب کرنے کا تھا تاکہ ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس حوالے سے سو دنوں کی کارکردگی یہ بتا رہی ہے کہ مختلف اداروں اور محکموں سے پرانے ملازمین کو فارغ کر کے بیروزگاری میں اضافہ کیا جارہاہے۔ دوسرا ہدف پیداواری شعبے کی بحالی اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو تیزی سے ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے سازگار حالات کی فراہمی اور ٹھوس اقدامات کی شروعات تھی۔

اس سلسلے میں ایسی دیرپا اور مؤثر حکمت عملی بھی بنانا تھی جس سے ہماری پیداواری صنعت عالمی منڈی میں مقابلہ جاتی اہلیت کی حامل ہو سکے۔ برآمدات کے فروغ کے لیے انکم ٹیکس میں چھوٹ اور صنعتی اداروں کو اضافی سہولیات سے آراستہ کرنے کے لیے جامع اقدامات کرنا تھے مگر اس حوالے سے بھی کوئی قابل ذکر پیش رفت نظر نہیں آتی۔ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیرکے لیے واضح پالیسی کا قیام ان سو دنوں کی کارکردگی کے ماتھے کاجھومر بن سکتی تھی مگر اس حوالے سے ہنوز دلی دوراست کی صورت ہے۔ یا تو عمران خان کو پچاس لاکھ کے عدد کی سنگینی اور شدت کا ادراک نہیں تھا یا گھر کو وہ گھروندا بھی نہیں کھلوناسمجھے تھے۔ حالانک خان صاحب کو بقول شاعر یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے تھی کہ

دل کا اجڑنا سہل سہی بسانا سہل نہیں ظالم
بستی بسانا کھیل نہیں یہ بستے بستے بستی ہے

”وزیراعظم اپنا گھر پروگرام“ کا تو معلوم نہیں کیا بنا البتہ نئے پاکستان کے معماروں نے بے گھروں کے لیے تنبو قناتوں کا اہتمام کرکے خیمہ بستی آباد کرکے رونق لگا دی ہے۔ بستی نہ سہی خیمہ بستی ہی سہی۔ پہلے سو دن کے اہداف میں سیاحت کا فروغ ایک اہم نکتہ تھا۔ اس حوالے سے پہلے سو دنوں میں چار نئے سیاحتی مقامات دریافت کرناتھے۔ اس سلسلے میں حکومت کے اقدامات شہریوں کے لیے گورنر ہاؤسز کی یاترا تک ہی محدود ہیں۔

ٹیکس ایڈمینسٹریشن میں اصلاحات کے ضمن ایف بی آر کی سربراہی کسی دلیر، قابل اور متحرک آدمی کو سونپ کر ٹیکس نیٹ میں بہتری لانا تھی۔ یہ منصوبہ بھی مکمل طور پر ناکام رہا کیونکہ اس حکومت نے با الواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کرکے غریب عوام کی کمر توڑ دی۔ معیشت کی بحالی کے لیے قرضوں پر انحصار کم کرنے کی دعویدار حکومت نے عدل و انصاف پر مبنی کاروبار دوست پالیسی تو کیا لاگو کرنا تھی الٹا سو دن کی مختصر مدت میں ریکارڈ قرض لے کر پچھلی حکومتوں کو بھی شرمندہ کردیا۔

پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاروں کی جنت بنانے کے لیے ہمہ گیر پالیسی بنانے والوں نے ایسے کاروبار دشمن اقدامات کرنا شروع کردیے کہ ملک کا معتد بہ کاروباری طبقہ بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں جا کر کاروبای سرگرمیاں شروع کرنے پر تل گیا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم نے پاکستان کو کاروبار کرنے والے ممالک کی عالمی رینکنگ کی فہرست میں 147 ویں نمبر سے پہلے سو ممالک کی فہرست میں لانے کے لیے پالیسی بنانا تھی۔ سو دن پورے ہونے پر لوگ اس کے بارے میں بھی استفسار کرتے ہیں۔

ریاستی اداروں کی تنظیم نو کے حوالے سے بھی بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے مگر نہ ”پاکستان ویلتھ فنڈ“ کی کوئی خبر ہے نہ آزاد بورڈ آف گورنرز کے قیام کا کوئی پتہ ہے۔ ان اداروں میں بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل منتظمین کا تقرر تو دور کی بات ہے۔

توانائی کے بحران پر قابو پانا اور فوری طور پر دیرپا پالیسی کا اجرا تھا تاکہ صارفین کو سستی اور بلاتعطل بجلی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کی انرجی پالیسی پر کام کا آغاز کیا جانا تھامگر علی طور پر ہوا یہ کہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھا کر عوام کا جینا دوبھر کر دیا گیا۔ حکومت کے پہلے سو دن کے پروگرام میں پاک چین راہداری منصوبے کو انقلابی منصوبہ بنا کر چین سے دو طرفہ روابط کے قیام کے ذریعے زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں تیز رفتار ترقی کے سفر کو یقینی بنانا تھا مگر اس کے برعکس ہوا یہ کہ ہم نے الٹے سیدھے بیانات سے اس مثالی منصوبے کو نہ صرف متنازعہ بنادیابلکہ دیرینہ اور مخلص دوست چین کو ناراض بھی کر دیا۔

وہ تو بھلا ہو آرمی چیف کا کہ جنہوں نے پاک چین تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ شہریوں اور صنعت کاروں کے مالی وسائل تک رسائی میں اضافے، قومی سطح پر بچت اور سادگی کی حوصلہ افزائی کے لیے جامع منصوبہ بندی، قومی مالیات میں شراکت داری کی حکمت عملی کے نفاذ کو مربوط بنانے سمیت بے شمار دعوے کیے گئے تھے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اس حکومت کا بیشتر وقت پرانی حکومت پر سب و شتم، اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور فضول قسم کے کاموں اور لاینحل بحثوں کی نذر ہو گیا۔

اس حکومت کی ناکامیوں کی فہرست بہت طویل ہے تاہم سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ پہلے سو دنوں میں یہ قومی اسمبلی سے ایک بھی بل نہیں پاس کروا سکی۔ بیرون ملک لوٹی دولت کے بارے میں ہوشربا کہانیاں سن سن کر ہمارے کان پک گئے تھے مگرایک پائی بھی واپس نہیں لائی جا سکی۔ اب تو اہل وطن کو یقین ہو چکا ہے کہ یہ سب سیاسی بیانات اور جھوٹی وناقابل عمل باتیں تھیں۔ مختصر حقیقت تو یہ ہے کہ مذہب و یا ملت، جمہوریت ہو یاحکومت، معیشت ہو یا تجارت، صنعت ہو یا زراعت، توانائی کا شعبہ ہو یاکاروباری معاملات، امن و امان کی صورت حال ہو یاتعلیمی میدان، کارِ سیاست ہو یا امورِ جہاں بانی، داخلی جولاں گاہ ہو یا خارجی محاذ، بچت و سادگی کی مہم ہو یا کفایت شعاری بدقسمتی سے 31 مئی کے بعد حالات روزافزوں خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ بدحالی، تنزل، سیاسی اضطراب، مہنگائی، بدامنی اور ہیجان خیزی و افراتفری کی یہی رفتار رہی اور اس حکومت کو پانچ سال کی مدت مل گئی تو خاکم بدہن ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).