عمران خان کی حکومت کے 100 دن: 50 لاکھ گھر کب تک بنیں گے؟


پاکستان میں سستے مکانات

وزیراعظم عمران خان نے ملک میں 50 لاکھ نئے مکانات کم آمدن والے طبقے کے لیے تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے

پاکستانی عوام موجودہ حکومت کے اس وعدے پر تکیہ کیے ہوئے ہے کہ وہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے تک ملک بھر میں 50 لاکھ گھر بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

وزیراعظم عمران خان کی طرف سے 11 اکتوبر کو اس ہاؤسنگ پروجیکٹ کا افتتاح کیا گیا۔ پہلے یہ پروجیکٹ صرف نو شہروں کے لیے تھا لیکن بعد میں اس منصوبے کو 19 شہروں تک پھیلا دیا گیا۔

کون کون سے شہر شامل؟

اس منصوبے میں سب سے زیادہ شہر آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے شامل کیے گئے ہیں جن کی تعداد 13 ہے۔

باقی تین صوبوں سے صرف ایک، ایک شہر منتخب کیا گیا ہے۔ سندھ سے سکھر، بلوچستان سے کوئٹہ اور خیبر پختونخوا سے سیدو شریف کو چنا گیا ہے۔ شمالی علاقوں سے گلگت جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے مظفرآباد کا انتخاب کیا گیا ہے۔

پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد بھی ابتدائی طور پر ان شہروں میں شامل ہے جہاں پر نیا پاکستان ہاؤسنگ پروجیکٹ شروع کیا جائے گا۔

اس منصوبے میں صوبہ پنجاب کے زیادہ شہر شامل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس صوبے سے حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کو عام انتخابات میں اتنی نشستیں نہیں ملیں جس کی توقع تحریک انصاف کی قیادت کر رہی تھی۔

سرمایہ کہاں سے آئے گا؟

حکومت کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں مختلف بینکوں اور نجی شعبے کو بھی شامل کیا جائے گا جو نہ صرف اس منصوبے میں سرمایہ کاری کریں گے بلکہ جن لوگوں کو یہ گھر الاٹ کیے جائیں گے ان کی مالی ضمانت بھی دے گا۔

اقتصادی امور پر نظر رکھنے والے صحافی مشتاق گھمن کے مطابق موجودہ حکومت کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہیں کہ وہ اس منصوبے کے لیے رقم فراہم کر سکے۔

اُنھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں جب اپنا روزگار کے تحت پیلی ٹیکسی سکیم شروع کی گئی تھی تو اس میں بھی مختلف بینکوں نے ضمانت دی تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ اس منصوبے میں بھی حکومت کو اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔

مشتاق گھمن کے مطابق اس منصوبے میں حکومتی ضمانت کی وجہ سے مختلف بینکوں نے جو رقم خرچ کی تھی وہ اس حکومت کو سود سمیت مختلف بینکوں کو ادا کرنا پڑی تھی۔

تعمیرات

اُنھوں نے کہا کہ ابھی منصوبے کے لیے حکومت نے مختلف بینکوں کے ساتھ بات چیت کا بھی آغاز نہیں کیا اور ابھی نجی بینکوں کی انتظامیہ کی طرف سے بھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا کہ وہ اس منصوبے پر کتنی سرمایہ کاری کریں گے۔

مشتاق گھمن کا کہنا ہے جس طرح ان دنوں قومی احتساب بیورو متحرک ہے اس سے بظاہر ایسا مشکل دکھائی دے رہا ہے کہ سرمایہ کار اتنی بڑی تعداد میں سرمایہ کاری کریں گے جس کی توقع پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کر رہی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کے لیے 20 ارب روپے رکھے ہیں جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔

فارمز سے کتنا پیسہ ملا؟

لاکھوں افراد نے اس منصوبے میں گھر حاصل کرنے کے لیے ڈھائی سو روپے مالیت کے فارم حاصل کیے لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہر فارم حاصل کرنے والوں کو گھر بھی ملے گا اس کا فیصلہ تو قرعہ اندازی سے ہی ہو گا۔

 

فارم سے ملنے والی رقم کے بارے میں بھی حکومت کی طرف سے کچھ نہیں بتایا گیا لیکن اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہے کہ اگر لاکھوں فارم فروخت ہوئے ہیں تو اس سے حاصل ہونے والی کمائی تو کروڑوں میں ہو گی۔ جو فارم فروخت کیے گئے ہیں ان پر کاغذی کارروائی 21 دسمبر تک جاری رہے گی تاہم اس مدت میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اس منصوبے کے لیے کاغذی کارروائی پر تو کسی حد تک کام مکمل ہو گیا ہے لیکن سب سے اہم بات کہ گھر کہاں پر بنائے جائیں گے اس زمین کا انتخاب ہونا ابھی باقی ہے۔

اس منصوبے سے منسلک ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ابھی تو زمینوں کے بارے میں سروے بھی شروع نہیں ہوا جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ حکومت کے پاس کتنی زمین ہے جہاں پر گھر بنائے جا سکیں۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس بہت سی زمین پڑی ہے جس کی قیمت کئی سو ارب روپے ہے۔

اس منصوبے میں بتایا گیا ہے کہ اس جگہ کا انتخاب اس شہر کے ڈپٹی کمشنر کے علاوہ منتخب نمائندے اور بلدیاتی نمائندے کریں گے۔

اتنی زمین کہاں سے آئے گی؟

ابھی تو اس بارے میں یہ رپورٹ بھی نہیں آئی کہ جن شہروں میں نیا پاکستان ہاؤسنگ پروجیکٹ شروع کیا جائے گا وہاں پر کیا حکومت کے پاس اتنی زمین ہے کہ وہاں پر اس منصوبے کو شروع کیا جا سکے۔

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ایئر پورٹ سے لے کر روات تک بہت سی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن چکی ہیں اس کے علاوہ شاید ہی ایسی کوئی زمین ہو جس پر کوئی مقدمے بازی نہ چل رہی ہو۔

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر اس شہر کے ماسٹر پلان میں کوئی تبدیلی کی جائے تبھی اس بات کا امکان ہے کہ نئے گھروں کی تعمیر کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

ابتدائی طور پر اس منصوبے کے لیے پانچ ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے لیکن اس کی تکمیل میں کئی سو ارب روپے درکار ہوں گے۔

تعمیرات

پاکستان میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا عام سی بات ہے چونکہ یہ دیوانی نوعیت کا مقدمہ ہوتا ہے اس لیے ایسے مقدمات کے فیصلے ہونے تک کسی سال لگ جاتے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ دیوانی نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ ایک سال میں کیے جانے سے متعلق قانون سازی بھی کرے گی۔ اس قانون کو منظور کروانے کے لیے حزب مخالف کی جماعتیں حکومت کا کتنا ساتھ دیتی ہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

نحی گھروں کی تعمیر کے کاروبار سے منسلک محمد رشید کا کہنا ہے کہ ایک گھر کا صرف ڈھانچہ کھڑا کرنے میں ڈیڑھ سے دو ماہ لگ جاتے ہیں اور وہ بھی ان حالات میں اگر تمام تعمیراتی سامان فراہم ہو۔

اُنھوں نے کہا کہ سرکاری طور پر شروع کیے گئے منصوبوں کی تکمیل کے لیے یہ عرصہ کئی ماہ تک بڑھ سکتا ہے۔

محمد رشید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیمنٹ اور سریے کی قیمت ڈالر کی قیمت کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔ اگر مارکیٹ میں ڈالر سستا ہے تو ان کی قیمت کم ہو گی اور اگر ڈالر مہنگا ہے تو پھر ان اشیا سمیت دیگر تعمیراتی سامان کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔

’حکومت کوئی ایک وعدہ تو پورا کرے!‘

وفاقی دارالحکومت میں رہائش پذیر ایک سرکاری ملازم تنویر احمد کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ 23 سال سے سرکاری نوکری کر رہے ہیں اور ابھی تک انھیں سرکاری گھر الاٹ نہیں ہوا جبکہ وہ سنیارٹی میں بھی اوپر والے نمبروں میں ہیں۔

تنویر احمد نے بھی لائن میں لگ کر نیا پاکستان ہاؤسنگ پروجیکٹ کے منصوبے میں گھر ملنے کی امید پر فارم حاصل کیا ہے لیکن وہ اس بارے میں ہونے والی قرعہ اندازی کے بارے میں اتنے پرامید نہیں ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ جہاں حج اور پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی قرعہ اندازی میں اتنے گھپلے ہوں تو وہاں ایسے حالات میں اس منصوبے کے لیے حق داروں کا ان کا حق ملتا کافی مشکل ہے۔

اُنھوں نے شکایت بھرے ہویے لہجے میں کہا کہ ’کاش کوئی حکومت معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے ساتھ کیا گیا کوئی ایک وعدہ ہی پورا کر دے۔‘

حکومت نے نئے پاکستان منصوبے کو عملی جامہ پہنانے عملی طور پر کام کا آعاز تو نہیں کیا البتہ وزیراعظم نے فٹ پاتھوں پر سونے والے نادار افراد کے لیے عارضی بنیادوں پر شیلٹر ہوم ضرور بنائے ہیں تاکہ ایسے لوگ سردیوں میں رات بہتر طریقے سے گزار سکیں اور ان افراد کے لیے رضائیوں اور کمبلوں کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ تاہم وفاقی حکومت کا یہ اقدام ابھی پورے ملک تک نہیں پھیلایا گیا۔

ناقدین پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے نئے گھروں کی تعمیر کے منصوبے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ جو جماعت پشاور میں میٹرو منصوبے کو بروقت مکمل نہ کر سکے اور اس منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 40 ارب سے زیادہ بڑھ جائے تو وہاں پر نئے گھروں کی تعمیر کے منصونے کی بروقت تکمیل جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور اس کے حمایتوں کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ پانچ سال کے عرصے میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر ایک مشکل کام ہے اس لیے اب اُنھوں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر مقررہ مدت تک 50 لاکھ گھر نہ بنے تو کم از کم ایک لاکھ گھروں کی تعمیر کا ٹارگٹ تو ضرور حاصل کر لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp