مطالعہ نیا پاکستان


سنہ عیسوی 1997 میں پاکستان میں ہر طرف تاریکی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ اس وقت کوئی بارہ کروڑ آبادی رکھنے والا عظیم ملک بجلی، پانی، گیس سے محروم تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ فطرت بھی اس ملک سے منہ نہوڑے ناراض بیٹھی ہے۔ ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی اور زندگی گزارنے کی تمام امید اور جینے کے تمام آدرش تباہ و برباد ہو چکے تھے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا جو ہر طرف تھا۔ دن کے بارہ بجے بھی رات کے دو بجے والی تاریکی موجود ہوتی تھی۔ دنیا کی تیسری ذہین ترین قوم کو معلوم ہی نہ تھا کہ کب دن ہوا، کب رات ہوئی، کہ رات کا سفر پچھلے پچاس برس، یعنی پرانے پاکستان کے قیام کے فورا بعد سے ہی جاری ہو گیا تھا۔

گو کہ بیچ درمیان میں فطرت کبھی کبھار پاکستان پر مہربان ہوتی تھی اور ذی مقام سکندر مرزا صاحب، ایشائی ڈیگال ایوب خان صاحب، فاتح بنگال یحیٰ خان صاحب اور سکندرِ افغانستان جنرل ضیا صاحب جیسے جنتی انعامات لوگوں پر نازل ہو جاتے تھے، مگر کیا ہی بدقسمتی تھی کہ یہ ساری تجلیاں مل کر بھی پاکستان کے دلدر دور نہ کر سکی تھیں۔

مگر تاریکی میں بھٹکتے اور مایوس عوام کو امید کا ایک ایسا لشکارہ ملنے والا تھا جو اس سے پہلے انسانی تاریخ نے نہ تو دیکھا تھا، اور بعد از قیامت بھی ایسے لشکارے کے دیکھے جانے کے کوئی امکانات نہ تھے۔ جنتی انعامات میں سے ایک نہایت قیمتی انعام فاتح جلال آباد جناب حمید گل کا تھا، جنہوں نے سب سے پہلے اس آفاقی لشکارے کی جانب ”نرم انقلاب“ کی ترکیب ایجاد کر کے نظریہ پرانا پاکستان کے خودساختہ ترجمان اور ٹھیکیدار اک لاہوری اخبار، جو اپنے کارکنان کو ان کی غربت کی وجہ سے تنخواہیں روک کر صبر و قناعت کا سبق پڑھانے میں یدِ طولیٰ رکھتا ہے، میں کالموں کی اک سیریز لکھ کر نوائے وقت دی کہ وقت بدلنے والا ہے۔

پھر اقوام متحدہ میں ساری عمر ملازمت کر کے تامرگ وہاں سے فوائد حاصل کرنے میں مسلسل مصروف رہنے والے اک شہابی، اشفاقی، ممتازی اور آج کل اوریائی روحانی بابے انکل نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون ون میں اپنے گھر میں پکوڑوں اور چائے سے خدمت کرتے ہوئے لوگوں کو اک نیا خواب دکھایا، اور اس آفاقی لشکارے کی تخلیق کے لیے اپنا دماغی سپرم، فاتح جلال آباد کے انڈے کے سپرد کیا اور یوں پھر 1997 میں اک ”چراغ“ جلا۔

فطرت نے گرتے پڑتے اور برباد ہوتے ہوئے پاکستان پر اک بار پھر نظرِ کرم کی اور اکتوبر 1999 میں فاتح بلوچستان پرویز مشرف صاحب کا ظہور ہوا۔ پاکستان کا مستقبل اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روشن ہو چکا تھا۔ روشنی کی اتنی زیادتی تھی کہ جابجا جھماکے ہوتے رہے، جو ابھی تک خدا کے فضل و کرم سے جاری ہیں۔ ابھی ہنگو میں پچھلے ہفتے ہی اک جھماکہ ظہور پذیر ہوا اور پچاس لوگوں کو جنت میں فوری ایکسپورٹ کر گیا۔ بے شک، گناہگار مسلمانوں کو اور کیا چاہیے بھلا؟

جلایا جانے والا چراغ پھر اک بَلّا بن گیا اور 2002 کے انسانی سیاسی تاریخ کے شفاف ترین الیکشنوں میں اس بلّے کو ایک وکٹ ہی ملی، گو کہ پسِ پردہ مطالبہ اس سے کہیں زیادہ تھا، مگر پاکستان پر خدائی احسان، جناب پرویز مشرف صاحب نے جوابی مطالبہ یہ کیا کہ سدابہار کے گجراتی چوہدریوں کے ساتھ اس بلّے کی شراکت داری بہت ضروری تھی، مگر مہاتمائی چراغ نے یہ گوارا ہی نہ کیا کہ وہ ان کرپٹ لوگوں سے ہاتھ ملائے۔

وقت کا پہیہ مزید آگے بڑھتا چلا گیا۔ تاآنکہ افتخارِ انصاف کا ظہور ہوا جن کی تربیت کے چرچے موناکو کے جوا خانوں تک ہوئے اور ایک پراپرٹی ڈیلر نے قرآن کی قسم میڈیا پر اٹھا کر ”افتخار کے افتخار“ کو ”ڈان“ کا خطاب عطا فرمایا۔ فاتح بلوچستان نے اک ناکام جوابی وار کیا؛ ناکام اس لیے کہ وقت اور کردار پورا ہو چکا تھا اور باقی عمر دبئی میں ڈانس کرتے اور بعد از بیمار ہوتے گزارنی تھی۔

رہے نام اللہ سائیں کا!

پھر پاکستان کو آئین دینے والی اک کرپٹ جماعت کے دور میں میڈیا میں ذمہ داری کا اک ایسا روحانی احساس جاگا کہ جو پھر مسلسل 2018 کے المشہور آر ٹی ایس رکوانے اور پاکستان بچانے والی رات ساڑھے گیارہ بجے آئی اک کال والے انتخابات تک جاری رہا۔ پاکستانی میڈیا بھی ان سات سالوں میں دھمالیں ڈالتا رہا، سنی سنائیوں پر سیاستدانوں کا گلا گھونٹتا رہا یہ جانے بغیر کہ نئے پاکستان میں پہلا گلا ان کا ہی گھونٹا جائے گا۔

پھر اک عظیم معجزہ نے 2018 میں نیا پاکستان بنایا، جو سات لاکھ لیٹرینوں کا تحفہ لے کر آیا۔ ڈالر 142 روپے پر پہنچایا۔ 50 لاکھ گھروں کا تحفہ دلایا۔ ایک کروڑ نوکریوں کا انعام بھی لایا۔ پشاور جنگلہ بس کو 90 ارب پر پہنچایا۔ امریکی وزیرِ خارجہ اور فرانسیسی صدر کی ٹیلی فون کالوں کا قضیہ چلایا اور اپنا جھوٹ بھی پکڑوایا۔ پھر الیکشنی وعدوں کو شادی سے پہلے کا جھوٹ بھی کہلوایا۔

بیچ میں مزید بہت کچھ رہا، مگر پھر 100 دن کی تزویراتی مدت کی تکمیل پر دیسی مرغیوں اور انڈوں کا پالیسی بیان بھی دغوایا، اور پھر نئے پاکستان کے کارکنان نے ہر درفنطنی کی طرح، اس کا دفاعی مورچہ بھی بنایا۔
ککڑوں کڑوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).