گرونانک کے پیروکار اور امن کی خواہش



وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی تقریب حلف برداری اس حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کہ ہندوستان کی مشہور شخصیت ،کھلاڑی ،اداکار، اینکر سیاستدان اور ہردل عزیز،جناب نوجوت سنگھ سدھو تشریف لائے۔ ان کی آمد اور جناب جنرل قمر جاوید باجوہ سے ڈالی گئی جپھی نہ صرف برصغیر پاک و ہندمیں مقبول ہوئی بلکہ ہندوستانی سیاست میں ایسا ارتعاش پیدا کر گئی جس کے مثبت اثرات نکلنے شروع ہو گئے ہیں۔ جناب مودی کی تنقید کے باوجود سدھو کی پاکستان آمد مشرقی پنجاب میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جا رہی ہے۔ اس ملاقات میں جنرل قمر باجوہ نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کرتار پور بارڈر کھولنے کا عندیہ دیا تھا۔ آج ہندوستان کی حکومت نے بھی اس کی تائید کر دی ہے۔ یوں مشرقی پنجاب کے سکھوں نے اس بات پر بہت خوشی کا اظہار کیا ہے۔
بابا گرونانک کی جنم بھومی موجودہ ننکانہ صاحب میں واقع ہے جہاں ہر سال سکھ یاتری بڑی تعداد میں زیارت و عبادت کے لئے آتے ہیں۔ پاکستان میں سکھوں کئی مقدس مقامات واقع ہیں۔ بابا گرونانک پانچ سو سال پہلے ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاوں میں حاصل کی تھی۔ ان کا خاندان ہندو مت کا ماننے والا تھا ۔ ان کے والد کالو چاہتے تھے کہ وہ حساب کتاب اور کھاتے بہی تیار کرنے میں مہارت حاصل کرے۔ مگر بابا جی شروع سے ہی گیان دھیان کی طرف مائل تھے لہذا تعلیم حاصل کرنے کی بجائے ادھر ادھر نکل جاتے خاموش رہتے ۔ روائتی تعلیم پر اپنے استاد کو ایک نظم سنا کر سکول سے رخصت ہوئے۔
تعلق دنیاوی کے بندھن کو جلا کر اور اس کی راکھ کا سفوف بنا کر۔
روشنائی تیار کر۔
اپنے صاف ذہن کو کاغذ بنا۔
عشق کو قلم بنا اور اپنے دل کو لکھنے والا۔
اور گورو جو لکھائے وہ لکھ۔
اس خالق کا نام لکھ اور اس کی حمد وثنا کر۔
لکھ کہ وہ لامحدود و بیکراں ہے۔
یہی تحریر حساب کتاب ہے جو ہمیں سیکھنا ہے۔
بابا جی لڑکپن میں جانور چرایا کرتے ۔ دوپہر کو دھوپ سے بچنے اور آرام کرنے جس درخت کے نیچے آرام فرماتے وہ درخت آج بھی ننکانہ صاحب کے ایک گوردوارے کے ساتھ محفو ظ ہے۔ اسی طرح ایک کیارہ صاحب نامی مقدس کھیت بھی ننکانہ صاحب میں ایک گوردوارے کے ساتھ محفوظ ہے۔ بابا گرونانک سولہ سترہ سال کی عمر میں ننکانہ صاحب چھوڑ کر سلطان پور آگئے۔ یہاں ان کی بہن رہتی تھی۔ سلطان پور کے نواب کے پاس اناج ذخیرہ کے نگہبان کی نوکری کرتے رہے لیکن ان کا دھیان بھگوان کی طرف ہی لگا رہتا۔ سورج نکلنے سے پہلے شہر کے باہر ایک ندی پر چلے جاتے۔ اس ندی میں نہاتے اور بھگوان کو یاد کرتے جاتے۔ ایک بار اسی ندی میں نہاتے ہوئے گم ہو گئے۔ لوگوں نے سمجھا آپ ڈوب گئے ہیں لیکن تین دن کے بعد آپ واپس آگئے۔ اور رب کی تعریف میں نغمہ سرا ہوئے۔
اگر میں لاکھوں سال بھی زندہ رہوں۔
تیرے گیان میں لگا رہوں۔
اگر میں چکی میں دانے کی طرح پیسا جاوں۔
اگر میں آگ میں جلایا اور راکھ بنا کر بکھیرا جاوں۔
تب بھی تیری قیمت نہ پا سکوں۔
گرونانک نے سلطان پور میں اپنی بہن کے ایما پر شادی کی یہیں ان کے دو بچے ہوئے۔ وہ ہر وقت اپنے رب کو پکارتے اور اسی کی تعریفیں بیان کرتے رہتے۔ حاسدوں نے ان پر خورد برد کا الزام لگا کر نواب سے بدزن کرنے کی کوشش کی تو آپ نے آڈٹ کا مطالبہ کر دیا۔ آڈٹ ہوا تو الٹا آپ کے سرکار کے نام بقایا جات نکل آئے جو آپ نے خیرات کر دئے۔
گرونانک نے نوکری چھوڑ دی اور جنگل نشین ہو گئے۔ ۔ پہلے خاموشی اختیار فرما ئی۔ پھر اپنا گھر بار چھوڑ کر سفر پر نکل گئے۔ تقریباً تیئس برس سفر میں گزارے۔ ہندستان کے چاروں کونے اور ہندستان سے باہر مکہ معظمہ اور بغداد تک کا سفر کیا۔ آخری دور کرتار پور میں گزارا۔
گرونانک اونچی ذات کے ہندو خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن ہندو رسم ورواج کے سخت خلاف تھے۔ ان کا قریبی دوست اور ساتھی ایک مسلمان اور ذات کا ڈوم تھا جو ساری عمر آپ کے ساتھ رہا۔ آپ اس دور کے ہندستانی مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے۔ ایک بار ارشاد فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جو اپنے نبی کی سنت کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔ ان کا مشہور قول(نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلمان)اسی بات کی غماّزی کرتا ہے۔ وہ اپنے خدا کے سچے عاشق تھے ایک شبد میں فرماتے ہیں۔
اگر موتی کے محل بنے ہوتے اور وہ جواہرات اور ہیروں سے جڑے ہوتے۔
ان پرصندل ،زعفران اور مشک کی لیپ ہوتی۔
تو بھی میں لالچ میں نہ آوں۔ تیرے نام کو یاد کرنا نہ بھولوں۔
اگر زمین ہیرے جواہرات سے جڑی ہو۔
اور پلنگ موتیوں سے مزیں ہو
اور ایک ہیرے جیسے تاب والی موہنی صورت ہو۔
جس کے لبوں پر محبت والے الفاظ ہوں۔
تو بھی میں لالچ میں نہ آوں اور تیرے نام کو یاد کرنا نہ بھولوں۔
اگر میں جادو کی سبھی طاقتوں کا مالک ہوں۔
اور دولت کے سبھی خزانے میرے حکم سے پیدا ہوسکتے۔
اگر میں جب چاہتا غائیب ہو سکتا۔
اور لوگ میری مستقل تعریف کرتے۔
تو بھی میں لالچ میں نہ آوں اور تیرے نام کو یاد کرنا نہ بھولوں۔
اگر میں طاقتور فوجوں کا حکمران ہوتا۔
اور میرے قدموں کے نیچے تخت ہوتے۔
اور میرا فرمان پوری طرح بے چون وچرا مانا جاتا۔
اور ہر سمت میرا حکم چلتا۔
تو بھی میں لالچ میں نہ آوں اور تیرے نام کو یاد کرنا نہ بھولوں۔
گرونانک کی سچائی کی سب سے بڑی نشانی ان کے چاہنے اور ماننے والوں کا جم غفیر ہے جو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ حکومت پاکستان اور ہندستان گرونانک کے ماننے والوں کو گرونانک کی جنم بھومی میں آمد کی سہولیات دے کر امن کی طرف جاسکتے ہیں۔ گرونانک کے ماننے والے بارڈر کے دونوں اطراف پائے جاتے ہیں۔ اور یہ امن کے پیامبر بن کر دونوں ملکوں کے عوام کو امن کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان اور ہندستان کے درمیان امن قائم کرنے کا ٹریک ریکارڈ کچھ اچھا نہیں رہا پھر بھی امید اچھی رکھنی چاہئے۔ امید پر دنیا اور پاکستان قائم ہیں۔ اللہ بہتری کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).