پر امن زخم


وزیراعظم عمران خان کے سو دنوں میں ایک اہم ترین کامیابی کرتار پورہ بارڈر کا کھلنا ہے۔ کرتار پورہ بارڈر کھولنے کے حوالے سے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بھی خواہش رکھتے تھے لیکن یہ کامیابی اسی کو ملی ہے جس کا نصیب تھا۔ وزیراعظم عمران خان کی اس کامیابی پر پورا پاکستان جبکہ تھوڑا سا بھارت بھی خوش ہے۔

بھارتی حکومت اس امن پسند فیصلے کے باوجود غصے میں ہے اور بھارت کی طرف سے سشما سوراج نے اس فیصلے پر جو اظہار خیال کیا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ کرتار پورہ بارڈر کھولنے کا فیصلہ بھارت سے ”سیاست کی نوک“ پر کروایا گیا ہے کیونکہ بھارت نے کھل کر کہہ دیا کہ کرتار پورہ بارڈر کھولنے کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے اور نہ ہی بھارت سارک کانفرنس کے لئے کوئی لچک دکھائے گا۔

وزیراعظم عمران خان پچھلے چند روز سے بھرپور ”فارم“ میں نظر آئے، 28 نومبر کو انہوں نے کرتار پورہ بارڈر کھولنے کا سنگ بنیاد رکھ کر بھارت کے سینے پر ”سنگ“ رکھ دیا اور پھر 29 نومبر کو انہوں نے اپنی 100 روزہ کارکردگی عوام کے سامنے پیش کی۔ کرتار پورہ بارڈر کھولنے کی تقریب میں بھارت کی طرف سے سکھ بہت پرجوش نظر آئے اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بھی کافی پرجوش نظر آئی، یہ منظر یقیناً بھارت کی ہندو نواز حکومت نے بھی اپنے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے براہ راست دیکھا ہو گا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کرتار پورہ بارڈر کو کپتان کی سیاسی گگلی قرار دیا ہے لہذا ماضی میں بھارت سمجھوتہ ٹرین پر خوفناک قتل عام کرکے اپنے ہندو نواز ذہن کی عکاسی کر چکا ہے کرتار پورہ بارڈر اب پاکستان کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ بھارت کی ہندو نواز حکومت اب اپنی ”چانکیائی“ سیاست کے ذریعے ایک تیر میں دو شکار کرنے کی پوری کوشش کرے گی اس لئے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ کرتار پورہ بارڈر اور پھر بابا گورونانک کے مزار پر بھارتی حکومت خون کی ہولی کھیلنے کی منصوبہ بندی کرے گی پچھلے چند سال گواہ ہیں کہ بھارت کے کلبھوشن نیٹ ورک نے پاکستان میں بزرگان دین کے مزاروں پر معصوم مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا اور پاکستان تمام شواہد اور کڑیاں ملانے کے باوجود قاتل بھارت کے چہرے سے نقاب سرکانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

سمجھوتہ ایکسپریس جو کہ دونوں ملکوں کے درمیان 1976 ء سے محبت کی امین سمجھی جارہی تھی تقریباً گیارہ سال پہلے 18 فروری 2007 ء کو ہریانہ کے مقام پر مسلمانوں کا قتل عام کرکے بھارت نے ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی اور بعدازاں یہ ثابت ہو گیا کہ یہ بھارت کی اپنی ہی کارستانی تھی اور پھر اگست 2015 ء میں اس قتل کا اصل ملزم بھی عدالت سے باعزت رہا ہو گیا اور بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس قتل عام کے اصل ملزم اسیم آنند کو باعزت رہا کروانے کے لئے نہ صرف مقتولین کے وکیل پر دباؤ ڈالا گیا بلکہ وقوعہ کے 11 عینی شاہدین کو ڈرا دھمکا کر منحرف ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہریانہ کے قریب پانی پت کے مقام پر 68 معصوم لوگوں کو بے دردی سے مار دیا گیا تھا اس ظلم کے باوجود بھارت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔

پاکستان میں زیر حراست کلبھوشن یادیو تخریب کاری کی بیسیوں وارداتوں سے پردہ اٹھا چکا ہے اور یہ بھی انکشاف کر چکا ہے کہ وہ کس طرح پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کے لئے راستہ ہموار کرتا رہا ہے ماضی کی ان وارداتوں کا سرسری جائزہ لینے کا مقصد یہ تھا کہ ارباب اختیار کو یہ باورکروایا جائے کہ سرحد پار سے بابا گورونانک کی بستی اور دیگر مقدس مقامات کی زیارت کے لئے آنیوالے سکھ یاتری نہتے بھی ہوں گے اور بے خبر بھی ہوں گے پاکستان کو اپنا قبلہ قرار دینے والے سکھوں سے بھارت کی ہندو حکومت پاکستان کی سرزمین پراپنے نیٹ ورک اور ایجنٹوں کے ذریعے خوفناک کھیل کھیل سکتی ہے۔

بھارت کو اس وقت پوری دنیا میں ایک ایسا ماحول ملا ہوا ہے کہ وہ دہشتگردی خود کرکے الزام پاکستان پر لگا دیتا ہے اورپھر پوری دنیا پاکستان کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگتی ہے۔ بجائے اس کے کہ پاکستان اصل قاتل کا چہرہ بے نقاب کرے وہ اپنے دفاع میں لگ جاتا ہے اور جب تک اصل حقائق سامنے آتے ہیں اس وقت تک بھارت کے ہندو انتہاپسند ڈرا دھمکا کر وکیلوں کو بھی مستعفی ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں اور گواہوں کو بھی گولی اور گالی سے ڈرا کر اصل بیان سے منحرف کروا دیا جاتا ہے۔

لہذٰا کرتار پورہ بارڈر کھول کر صرف تالیاں بجا کر آرام سے بیٹھ جانا بہت بڑی حماقت ہوگی کیونکہ پاکستان کا 70 سال سے واسطہ ایک ایسے دشمن سے ہے جو نظریہ ”بغل میں چھری منہ میں رام رام“ پر یقین رکھتا ہے آج کل بھارت کے سکھوں میں پاکستان کے لئے محبت کا طوفان آیا ہوا ہے اور پاکستان کے عوام بھی انہیں اسی نظر سے دیکھ رہے ہیں لیکن مودی حکومت ان دونوں کو ”بدنظری“ سے دیکھ رہی ہے بھارت کی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو سمیت پاکستان سے محبت کرنے والے کئی سکھ راہنماؤں کی زندگی اس وقت خطرے میں ہے چند سال پہلے پاکستان کے حق میں بیان دینے پر ادا کار اوم پوری بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا شکار ہو چکے ہیں کرتار پورہ بارڈر کھول کر پاکستان نے اچھا قدم اٹھایا ہے اور سکھوں کی پاکستان آمد پر ان کی حفاظت کرنا اب زیادہ بڑا چیلنج ہو گا۔ کرتار پورہ بارڈر کا کھلنا مودی حکومت کے لئے ایک گہرا گھاؤ اور پرامن زخم ہے۔ بھارت بدلہ لینے تک اس کو چاٹتا رہے گا۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat