کم بول۔


پہلے میں بہت لکھتا تھا
پھر آہستہ آہستہ مجھے معلوم ہوا کہ ہم لوگ پڑھنے کے شوقین نہیں نہ ہی سننے کے ہیں بلکہ بولنے کے ہیں۔
ٹی وی شوز ، ایف ایم ریڈیو ، مالز ، بازار، امتحانی مراکز ، ہسپتال، مساجد اور حتی کہ بیت الخلا تک میں بولا جارہا ہے۔ کیا بولنا ہے ، کیوں بولنا ہے اور کب بولنا ہے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ بس بولنا ہے۔ زیادہ اور بلاوجہ بولنا لڑائی جھگڑے کو جنم دیتا ہے۔
حالانکہ خدا نے ہمیں دو کان دیے ہیں اور ایک زبان۔ خالق کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ۔ مطلب جس کا میں یہ سمجھا ہوں کہ دو الفاظ سنو تب ایک لفظ بولو۔ یعنی دگنا سنو اور اس سے آدھا بولو۔
یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ یہاں بھی بس پہلے کوئی ایک پوسٹ یا کمنٹ کرتا ہے دوسرا اس پر فوراً آ دھمکتا ہے کہ واہ تم کیا جانو؟ یوں نہیں یوں ہے۔ پھر چار پانچ اور خدائی خدمتگار اس پوسٹ پر عین اس طرح جمع ہوجاتے ہیں جیسے کُتے آپس میں لڑ رہے ہوں یا یوں کہا جائے کہ جیسے کسی چوک چوراہے پر کسی جھگڑے کے وقت جو ایک ھجوم سا لگ جاتا ہے اور اس مجمعے کے 98 فیصد لوگوں سے اگر پوچھا جائے کہ بھائی یہاں کیا ہوا ہے تو جواب آتا ہے
” پتا نہیں ۔ میں تو ابھی آیا ہوں یہاں۔ ”
اگر پتا ہی نہیں تو کھڑے ہو کر خوامخواہ رستہ کیوں بند کرتے ہو بھائی؟
ترکی بہ ترکی جواب دینا، سامنے والے کو چُپ کروانا اور اُجڈ اور جاھل کے ساتھ اس سے بڑی جہالت کا مظاہرہ کرنا ہمارا مشغلہ بن چکا ہے۔ اور دلیل اسکی ہمارے لاشعور میں یہی ہوتی ہے کہ ہم اصلاح کر رہے ہیں۔ قرآن کی وہ آیت آپ سب نے پڑھی ہوگی جس میں خداوند نے ارشاد فرمایا
“اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاؤ تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں”۔
رسول اللہ ص کے نعرے ہم سب مارتے ہیں مگر ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے سے قاصر ہیں اور جب ہمیں کوئی رسول اللہ ص کے اسوہ حسنہ کے بارے میں بتاتا ہے کہ کیسے عرب کے جاہل بدّوؤں کی بدتمیزی اور گستاخانہ لہجوں کے جواب میں رحمت اللعالمین نے انتہائی حلم، بردباری اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا تو ہم یہ کہہ کر دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم تو پیغمبر نہیں لہذا ہم یہ کیسے کریں۔
گویا ہم اپنے دعووں میں جھوٹے ہیں۔
مولائے کائنات امام علی ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ جب انسان کی عقل پختہ ہو جاتی ہے تو اسکی گفتگو مختصر ہوجاتی ہے۔
تھوڑے لکھے کو زیادہ سمجھیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).