کرتارپور راہداری تو اولیاء، سنتوں اور گروؤں کی مرضی سے کھلی ہے.


کچھ لوگ ابھی تک اس بات پر قائم ہیں کہ برصغیر پر اصل حکمرانی اولیاء، سنتوں اور گروؤں کی ہے۔ یہ کرتارپور راہداری کھولنا کوئی وزیر اعظم عمران خان یا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بس کا کام تھوڑی تھا، اگر یہ کام کسی حکمران کا ہوتا تو بھٹو اور اندرا گاندھی، نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی یا پھر پرویز مشرف اور واجپائی سرکار کچھ نہ کچھ کرلیتے۔

جس طرح کافی مسلمانوں کا ایمان ہے کہ جب تک بلاوہ نہ آئے کوئے چاہتے ہوئے بھی مدینے نہیں جاسکتا۔ اسی طرح چڑھدے پنجاب کے سکھوں کا بھی ایمان ہے کہ ننکانہ صاحب اور کرتارپور وہ ہی جاسکتا ہے جس کا وہاں سے بلاوہ آیا ہوگا۔ چڑھدا پنجاب تو رہا سرحد کے دوسرے پار مگر یہاں سندھ کے ہزاروں ہندو بھائی بھی یہ سمجھتے ہیں، جب تک واہگرو اور گرو نہ چاہے بندہ سندھ پنجاب والا کموں شہید بارڈر بھی کراس نہیں کرسکتا۔

جس طرح ہمارے دوست سردار کلیان سنگھ اور اس کا خاندان بھارت سے آنے والے ہر سکھ پریوار کا میزبان بنتا ہے اسی طرح لاہور میں رہنے والے کندھکوٹ کے ڈاکٹر جگدیش کمار مندھان اور اس کی دھرم پتنی ادی ببیتا کماری سندھ سے آنے والے ہندو مہمانوں کے میزبان بنتے ہیں، ان کو سارا سال اس دن کا انتظار رہتا ہے۔

اب کے بار جب ببیتا کماری کے والدیں نے بھارت سے صرف بابا گرو نانک کے میلے میں شرکت کے لئے واہگہ کو کراس کیا تو دونوں فرط جذبات سے رونے لگے۔ بابا اور اماں کہنے لگے ”یہ ہمارے بس میں تھا ہی نہیں کہ ننکانہ صاحب آسکتے، سب گرو کی کرپا ہے، اس نے چنا، اس نے بلایا اور ہم نکل پڑے۔ اس سال سے پاکستان آنے کی تیاری کر رہا تھا پر کام نہیں بن رہا تھا، میلے کا تو بس ارادہ تھا مگر کوئی تیاری نہیں تھی۔ صبح کو کسی نے پوچھا“ بابا گرو نانک نے بلایا ہے، ننکانہ اور کرتارپور چلو گے۔ ”دل سے آواز نکلی“ بلاوہ آیا ہے تو کیوں نہیں چلیں گے۔ ”وہ بندہ شام تک ٹکٹیں لے آیا، اور ہم نکل پڑے، عمر رسیدہ ہونے کی وجھ سے بارڈر پر ویزہ مل گیا۔ “

َاسی طرح سے ہمارے اک دوست چودھری ماجد نواز جو پاکستان کرکٹ بورڈ کی تمام ون ڈے اور ٹیسٹ سیریز کی ٹرافیاں بناتے ہیں نے چند دن کے ناغے کے بعد موبائیل پر کال کی اور کہا کہ ”اس وقت حرم نبوی میں اور روضہ رسول کے سامنے بیٹھا ہوں، تم یاد آئے دل نے کہا آپ کو کال کروں۔ “

”تم مذاق تو نہیں کر رہے، چند دن پہلے ہی تو ساتھ مل کر صفانوالہ چوک پر حنیف پائے والے کی دکان پر چھوٹے پائے کھا رہے تھے۔ “ میں نے حیرانے میں کہا تو اس نے فیسبوک پر لائیو کال ملادی۔ ماجد بھائی کے آنکھوں میں آنسو تھے۔ بس یار بلاوہ آگیا تھا اور میں آگیا، آپ کو بتا بھی نہ سکا۔ ”

”کرتارپور کے کوریڈور کے لئے پاکستان اور ہندوستان کے سرحدوں پر اک دروازہ کھول دیا گیا ہے تو اس میں یقینن بابا گرونانک اور دوسرے اولیاء کی مرضی شامل ہوگی۔ “ پنجاب یونیورسٹی اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمس) میں پنجابی طلبہ کو سندھی سکھانے والے پروفیسر اشوک کمار کھتری کا کہنا ہے کہ گذشتہ دنوں کرتارپور کے ساتھ ساتھ لاہور میں بھی اک اور شاندار اور تاریخی کام ہوا ہے، جس کا پہلے گمان بھی کیا جا سکتا تھا، یہ کام واہگرو اور بابا گرو نانک کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا، اور وہ ہے پنجاب یونیورسٹی کے پنجابی شعبے میں ”بابا گرو نانک چیئر“ کے قیام کا اعلان۔

کیا کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں بابا گرو نانک کے نام سے چیئر کا قیام عمل میں آسکتا ہے، مجھے تو نہیں لگتا۔ یہ اک خوش آئند بات ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی نے پہلے بار ”بابا گرو نانک انٹرنیشنل سیمینار“ کا انعقاد کیا، جس میں کئی اہل قلم نے شرکت کی۔ اس موقعے پر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر کی جانب سے انسٹیٹیوٹ آف لینگویجز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر اور پنجابی شعبہ کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمان نے جب پنجابی شعبہ میں ”بابا گرو نانک چیئر“ کے قیام کا اعلان کیا تو ہال تالیوں سے گھونج اٹھا۔ اور تالیاں بجانے والون میں سکھ، ہندو اور مسلمان سب شامل تھے۔

پروفیسر اشوک کمار کا کہنا ہے کہ سندھ میں ہماری مائیں جب اپنے بچوں کو جھولے یا گود مین سلاتے ہوئے جو لوریاں سناتی ہیں ان مین سے اک ”واہگرو۔ واہگرو۔ ست گرو۔ ست گرو۔ بھی ہے۔ کرتارپور راہداری کھلنے کی خوشی کو سندھ میں بھی محسوس کیا جارہا ہے، ابھی چند پہلے ہی سندھی زبان کے سب سے بڑے شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی درگاہ کے گدی نشین سید وقار حسین لطیفی بھی اعلان کر چکے ہیں کہ“ اولیاء کاؤنسل آف نارتھ آمریکا ”کی جانب سے دسمبر 2018 ع کے پہلے ہی ہفتے میں آمریکا کی نیویارک یونیورسٹی میں بابا گرو نانک کے 549 ویں اور حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے 275 ویں عرس کے حوالے سے“ بابا گرو نانک اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کانفرنس ”منعقد کی جا رہی ہے۔

یہ اک وقت میں پورے پاکستان میں بابا گرو نانک سے محبتوں کے والہانہ اظہار کا ہونا اچانک اور ایسے ہی نہیں۔ سندھ میں تو بابا گرو نانک کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد خاص طور سندھ کے ہندوؤں کے لیے سب سے بڑی اور پوتر یاترا سندھ میں ہنگلاج دیوی کا مندر جبکہ پنجاب میں ننکانہ صاحب اور کرتارپور ہی ہیں۔

پروفیسر اشوک کمار کھتری کا کہنا ہے اس وقت سندھ کے تمام شہروں میں موجود مندروں کے ساتھ گردوارے بھی بنے ہوئے ہیں، جو بابا گرو نانک کی پوری سندھ میں مقبولیت کا آئینہ دار ہیں۔ اس سے آگے کی بات ڈاکٹر جگدیش کمار بتاتے ہیں کہ ہر سال صرف سندھ سے دولاکھ سے زیادہ بابا گرو نانک کے ہندو پیروکار پنجاب آتے ہیں۔ زیادہ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کچھ ہندو خاندان خود کو بھی سکھ کہلانا شروع ہوگئے ہیں، اور اب اپنے نوزائیدہ بچوں کے بال پیدائش سے ہی نہیں منڈواتے۔

سندھ سے پنجاب میں آکر لاہور میں اپنا مستقل مسکن بنانے والے حضرت میان میر سرکار جس نے امرتسر میں سکھوں کے سب سے بڑے گردوارے ”گولڈن ٹیمپل“ کا سنگ بنیاد رکھا تھا کے لاکھوں مسلمان، ہندو اور سکھ پیروکار بھی کرتارپور راہداری کھلنے پر اتنا ہی خوش ہیں جتنا چڑھدے پنجاب کے سکھ۔ ان سب کو یقین ہے کہ یہ راہداریاں اور راستے ان اولیاء، سنت اور گروؤں کے مرضی کے بغیر نہیں کھل سکتے۔

مگر اپنی ساری زندگی سندھی قومپرستوں طلبہ کی تنظیم کاری اور بائیں بازو کے ساتھ گذارنے والے استاد خالد کا کہنا ہے کہ ”پاکستان میں ان اولیاء، سنتوں اور گروؤں سے بھی بڑے اور طاقتور کچھ گُرو ہیں، جن کی کرامتیں ان سے زیادہ ہیں، اگر وہ نہ چاہیں تو سرحدوں اس طرف یا دوسرے طرف راہداری یا کھڑکی کھلنا تو درکنار کوئی پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).