آہ الطاف فاطمہ !


اردو کی ممتاز ناول نگار، مترجم، افسانہ نگار اور استاد، 1929ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئیں اور 29 نومبر 2018ء کو لاہور میں انتقال فر ما گئیں۔ نواسی برس کی اس زندگی میں انہوں نے اردو ادب کو جو شاہکار عطا کئے ان کی قدر جوہری ہی جانتے ہیں۔ چونکہ اردو زبان خر کاروں کے ہتھے چڑھ چکی ہے اس لئے افسوس انہیں وہ مقام نہ دیا گیا جس کی وہ اہل تھیں۔

میرا آپا سے تعارف سن نوے میں تب ہوا جب لور لور پھرتے پھرتے تھک گئی اور امی کی لائبریری کی آخری کتاب، جسے بوجوہ اس کی ضخامت اور قدرے اجنبی سرورق کی وجہ سے نہ پڑھا تھا، پڑھنے کو نکال لی۔ سر ورق پہ چینی زبان میں کچھ لکھا تھا اور اس وقت تک چین سے تعارف، ہوپ سنز کے جوتے اور کھنچی ہوئی آنکھوں والی چینی مشاطائیں تھیں جو بال کاٹتے ہوئے تیزی میں کان کی لو بھی کتر جاتی تھیں۔

پہلے تو سوچا کہ یہ ٹیڑھی کھیر ہے یہیں پٹخو اور چل کے کہیں خاک اڑاؤ مگر نصیب میں کچھ اور لکھا تھا۔ کتاب کھولی اور پھر کبھی بند نہ کر پائی۔ میں کبھی بھی الطاف فاطمہ کے سحر سے نہ نکل سکی۔ ’ دستک نہ دو‘، ’ نشانِ محفل ‘، ’ چلتا مسافر‘، ’ وہ جسے چاہا گیا ‘، ’ تارِ عنکبوت‘، ’ نغمے کا قتل ‘۔ کتابیں ہیں کہ کسی دوسری دنیا کو جانے والے راستے کے دروازے۔ میں ان شہروں سے کبھی واپس نہ آ سکی۔ صفدر لیو چو، گیتی آراء، نصیبیا، کامنی، مسعود، ابا میاں، اماں، مالی، مالن کی گود میں اس کا کالا کلوٹا بچہ اور پان میں پڑی پیپر منٹ کی ٹھنڈی گولی۔

’ دستک نہ دو ‘ کو اردو کے پیشہ ور نقادوں نے کبھی بڑے ناولوں میں شمار نہ کیا، یا میری کم علمی کہ میری نظر سے کوئی ایسا تجزیہ نہ گزرا۔ وجوہات بے شمار تھیں لیکن ایسا نہ تھا اور نہ ہے کہ الطاف فاطمہ کو پڑھنے والے نہیں تھے۔ ان کے قارئین نہیں انگریزی محاورے کے مصداق ’ کلٹ فالوورز ‘ ہیں۔ یہ لوگ زمان و مکان کی دوری کے باوجود ایک دوسرے تک پہنچ جاتے ہیں اور ان کے درمیان قدر مشترک صرف الطاف فاطمہ کے فن سے محبت ہے۔

ٹھٹھہ کی ثمینہ عظمت کی دوستی، اسلام آباد کی رفعت سراج اور پاکپتن کی آمنہ مفتی سے ہوتی ہے اور وجہ، الطاف فاطمہ کی محبت۔ کالج کے ساتھ ایک تقریری مقابلے میں ایبٹ آباد جاتے ہوئے، گیتی آ راء سے ملاقات ہوتی ہے اور یہ ملاقات آج تک دوستی کی شکل میں قائم ہے۔ گیتی کا نام، الطاف فاطمہ کی گیتی آرا پہ رکھا گیا تھا۔

کتنے ہی دوست صرف الطاف فاطمہ کی وجہ سے دوست ہیں۔ ان سے میری ایک شہر میں رہنے کے باوجود صرف دو ملاقاتیں ہو پائیں۔ میں جس ادیب کو بہت پسند کرتی ہوں اس سے دور ہو جاتی ہوں کہ کہیں اس کی شخصی کمزوریاں جو ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں، میرے ذہن میں بنے اس کے نقش کو نہ دھندلا دے۔

پہلی ملاقات ایرج مبارک کے گھر، صدیقہ بیگم کی طرف سے منعقدہ تقریب میں ہوئی۔ میں تب بھی ان سے بہت دوستانہ نہ گانٹھ سکی، بس ایک طرف خاموش بیٹھی انہیں دیکھتی رہی۔ دیکھنے میں وہ بالکل میرے گھر کی کوئی بھی بڑی بوڑھی لگ رہی تھیں۔ ادیبوں والی پھوں پھاں بالکل نہیں۔ دوسری مرتبہ، طارق محمود صاحب کے گھر پہ ملنا ہوا۔ اب کی بار میں ان کے پاس بیٹھ کر انہیں بتاتی رہی کہ میں ان کی ’دستک نہ دو‘ کی حافظ ہوں۔ کئی پیرا گراف پورے پورے سنائے، تب بھی ان کے چہرے پہ غرور اور فخر کی کوئی علامت نمودار نہ ہوئی۔ الٹا عاجزی سے کہنے لگیں، ’ اے بہن ! اتنا مجھ کو پڑھتی ہو تو، ’خواب گر‘ پہ ہی کچھ لکھ دو۔‘ میں نے کئی بار قلم اٹھایا مگر اپنا وعدہ پورا نہ کر سکی۔

اس دن ہی انہوں نے مجھے کہا کہ یہ سب جو تمہیں کہہ رہے ہیں نہ کہ ابھی چھوٹی ہو، مت لکھو، مت لکھو، بہن! تم ناول نگار ہو، ناول کو جوانی کی ہمت اور خون چاہیے ہوتا ہے۔ یہ ہی لکھنے کی عمر ہے، بچوں کے ساتھ ہی ناول پل جائیں گے، لکھو۔

میں لکھتی گئی مگر ان سے باوجود ہزار خواہش دوبارہ نہ مل سکی۔مزے کی بات یہ کہ ہر کسی نے مجھ پہ قرۃ العین حیدر کی چھاپ ڈھونڈھنے کی کوشش تو کی اصل شخص کا نام کوئی بھی نہیں لے پایا۔ میرا اب تک کا سب لکھا، الطاف فاطمہ کے تتبع میں لکھا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ ان جیسا ایک لفظ بھی نہ لکھ پائی۔

نیم راہِ کہسار پہ

ایک شکستہ سمادھی کی اور بڑھتا ہوا پجاری

جنگل میں ایک زرد پتہ

سرسراتا ہے

اور شاخ سے جھڑ جاتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).