مجھ پہ ہنستے تو ہیں پر دیکھنا روئیں گے رقیب


اکبر الٰہ آبادی نے شبلی نعمانی کو دعوت نامہ بھیجا تو لکھا: آتا نہیں مجھ کو قبلہ قبلی بس صاف کہوں کہ بھائی شبلی تکلیف اٹھائو آج کی رات کھانا یہیں پکائو آج کی رات حاضر ہے جو کچھ دال دلیہ سمجھو اس کو پلائو قلیہ اکبر کو قبلہ قبلی نہیں آتا تھا، ہمیں یہ سو دن کا حساب سمجھ میں نہیں آتا۔

تحریک انصاف کی حکومت نے سو دن کی جو اڑائی تھی، اسی وقت باخبر لوگوں کو معلوم تھا کہ یہ سیاسی بات ہے۔ تیس چالیس برس کی لوٹ مار کے بعد ایک ایسی حکومت آئی ہے جس نے جھاڑو پھیرنے کے بجائے دوسرے تمام کام کرنے ہیں۔ سو دن میں یہ سب کام کیسے ہوسکتے ہیں؟

یہ کوئی آٹھ یا دس مرلے کا مکان نہیں کہ سو دنوں میں دیواریں اٹھا دی جائیں گی۔ چھت پڑ جائے گی۔ پلستر لگ جائے گا اور مکین منتقل ہو جائیں گے۔ عمران خان کا، ساری غلطیوں کے باوجود، پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے سربراہوں کے ساتھ موازنہ ایسا ہی ہے جیسا استاد امام دین کا تقابل علامہ اقبال سے کیا جائے۔

کہاں عمران خان کا کلی اور جامع (Holistic) نصب العین اور تجزیہ اور کہاں میاں صاحب کا بار بار گایا جانے والا ٹیپ کا بند جو صرف تین فقروں پر مشتمل ہے کہ ہم نے دہشت گردی ختم کی ہے۔ ہم نے روشنیاں پھیلائی ہیں۔ موٹروے بنائی ہے، فراق گورکھپوری نے کہا تھا ؎ جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی پھر وہی مسئلہ سود و زیاں ہے کہ جو تھا ۔

تعلیم، ٹیکس نیٹ، بیرونی قرضے، ہائوسنگ، زراعت، صنعت، برآمدات اور اس کے علاوہ درجنوں اور پہلو جو ملک کی ترقی کے لیے توجہ کا تقاضا کرتے ہیں عمران خان کی توجہ کا مستقل ٹارگٹ ہیں مگر مینڈک اور مچھلی کی بصارت اور بصیرت دونوں میں فرق ہے۔

مچھلی کنویں میں گر گئی، مینڈک بھائی کو اس نے بتایا کہ وہ سمندر سے آئی ہے جو بہت بڑا ہوتا ہے۔ مینڈک تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور سامنے والے پانی کی طرف اشارہ کرکے کہا کیا اتنا بڑا ہوتا ہے؟ مچھلی نے کہا نہیں، اس سے بھی بڑا، اب مینڈک نے انتہائی قدم اٹھایا اور پیچھے ہٹتے ہٹتے کنویں کی دیوار سے جا لگا۔ سامنے پورے کنویں کا دائرہ تھا۔ پوچھا کیا اس سے بھی بڑا؟

عمران خان نے سو دنوں کے حوالے سے جو تجزیہ اور پروگرام پیش کیا ہے، دیکھیے اس میں اس نے کن مسائل کا احاطہ کیا ہے۔ ٭ یکساں نظام تعلیم لانے کے لیے کمیٹی کی تشکیل۔ ٭ صحت کا نظام اور صحت کارڈ۔ ٭ بلاسود قرض کی فراہمی کے لیے ’’اخوت‘‘ کو پانچ ارب کی گرانٹ۔ ٭ کم غذا کے شکار بچوں پر توجہ۔

٭ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں وسعت۔ ٭ ایف بی آر میں اصلاحات۔ ٭ نیب کے اختیارات میں اضافہ۔ ٭ زرمبادلہ کے ذخائر۔ ٭ ریکوری کے لیے دوسرے ملکوں کے ساتھ ایم او یو۔ ٭ بیرون ملک سے ترسیلات زر۔ ٭ سیاحت کا فروغ۔ ٭ مذہبی سیاحت کا نکتہ۔ چھوٹے کسانوں کے لیے خصوصی مشینری۔ ٭ لاہور میں بہت بڑی مویشی منڈی کا قیام۔

٭ سیم والے علاقوں کے لیے جھینگا فارمنگ۔ ٭ دیہی خواتین کو مرغیاں، انڈے اور چوزے بطور کاروبار مہیا کرنے کا پروگرام۔ ٭ دنیا کی حلال گوشت مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ۔ ٭ نہریں پختہ کرنے کا عزم۔ ٭ مچھلی کی برآمدات۔ ٭ سول پروسیجر قانون میں تبدیلی۔ ٭ بیوائوں اور خواتین کے لیے تیز تر انصاف۔ ٭ وراثت میں خواتین کا حصہ۔ ٭ لیگل ایڈ اتھارٹی کا قیام یعنی غریب آدمی کے لیے وکیل کی سرکاری فراہمی۔

٭ وسل بلور ایکٹ یعنی کرپشن کی نشان دہی کرنے والے کے لیے بیس فیصد حصہ۔ ٭ ہائوسنگ سکیم۔ تارکین وطن کو قبضہ گروپ سے بچانے کی تدبیر۔ ٭ بجلی چوری کا انسداد۔ ٭ زمینوں کی قبضہ گروپ سے رہائی۔ ٭ بے گھر افراد کے لیے پناگاہیں۔

وزیراعظم نے جو اعداد و شمار کاغذات پر نظر ڈالے بغیر پیش کیے ان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ہوم ورک اچھی طرح کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سنگاپور کی برآمدات کتنی ہیں اور پاکستان کی کتنی؟ اور یہ کہ 43 فیصد بچوں کی مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ سے درست نشوونما نہیں ہوتی۔

وزیراعظم کو معلوم تھا کہ پوری آبادی میں سے صرف 72 ہزار اپنی ماہانہ آمدنی دولاکھ سے اوپر ظاہر کرتے ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ ملائیشیا کی سالانہ آمدنی سیاحت کے ذریعے بیس ارب ڈالر ہے۔ تعصب کی بات الگ ہے ورنہ انسان تصور بھی نہیں کرسکتا کہ زرداری صاحب یا میاں صاحب ایک تقریر میں ان تمام مسائل کا احاطہ کریں گے۔ دو باتیں اور ہیں جو حکومت کے مخالفین اور متخاصمین کر رہے ہیں۔

بظاہر دونوں باتیں منطقی نظر آتی ہیں۔ اول یہ کہ یہ تمام ٹارگٹ حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ بجا فرمایا! مگر قوموں کی تاریخ سے سبق یہ ملتا ہے کہ ترقی کرنے کے لیے نصب العین ہمیشہ بلند رکھا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا تیس شعبوں میں سے فرض کیجئے ہم پندرہ شعبوں میں ستر یا اسی فیصد ٹارگٹ حاصل کرلیتے ہیں یا تمام شعبوں میں تیس تیس فیصد کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا یہ اطمینان بخش امر نہ ہوگا؟

یہی اصول انفرادی زندگی میں کارفرما ہے جو طالب علم کلرک بننے کا خواہشمند ہے، وہ کلرکی سے اوپر نہیں جاسکتا مگر جو نوجوان عزم صمیم کرلیتا ہے کہ وہ بزنس میں کامیابی سے ہمکنار ہوگا یا بہت بڑا وکیل یا بہت بڑا طبیب یا بہت بڑا افسر بنے گا وہ اگر اپنے نصب العین کا تین چوتھائی بھی حاصل کرلے تو کلرک کے مقابلے میں پہلے آسمان پر ہوگا۔

پھر، مخالفین کو کس طرح معلوم ہے کہ یہ ٹارگٹ حاصل نہیں ہوں گے؟ کیا وہ غیب کا علم رکھتے ہیں یا اندر کا خبث میلے پردوں سے چھن چھن کر باہر آ رہا ہے؟ یہ پیشگوئی ہے یا خواہش؟ پروردگار عالم نے وعدہ فرمایا ہے کہ لیس للانسان الا ما سعیٰ۔ جس ٹارگٹ کے لیے سعی کرو گے وہی ملے گا۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ گرانی بڑھ گئی ہے۔ ڈالر اوپر نیچے جارہا ہے۔ روپیہ کی قدر گرتی جا رہی ہے۔ یہاں بھی بجا فرمایا مگر جب بھی بیساکھیاں ہٹائی جائیں، ایک بار انسان ضرور گرتا ہے۔ نہ بھی گرے تو ڈگمگاتا ضرور ہے۔ پھر وہ سنبھل جاتا ہے اور آخر کار بیساکھیوں سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔

خودکفیل ہونے کا راستہ کٹھن ہے۔ مسلسل قرضے لینے اور مصنوعی اقدامات کرنے سے معیشت کا پیٹ وقتی طور پر پھول جاتا ہے مگر تلوار سر پرلٹکتی رہتی ہے۔ ہم جو کچھ اصل میں ہیں، اسی کا سامنا کرنے میں ہماری نجات ہے۔ گرانی اور ڈالر اوپر جائیں گے مگر جب معیشت مضبوط ہونے سے نیچے آئیں گے تو نیچے آنے کا یہ عمل مستقل بنیادوں پر ہوگا۔

کسی ماں نے کہا تھا میرا پتر جھلا تو ہو سکتا ہے، چور نہیں ہوسکتا۔ عمران خان سے غلطی ہوسکتی ہے، ولایت کا اس نے دعویٰ نہیں کیا مگر اس کی نیت میں کھوٹ نہیں۔ اس نے سرے محل خریدنا ہے نہ لندن میں فلیٹ۔ نہ بھارت کی کسی بستی کے نام پر محلات کا شہر بسانا ہے۔

کابینہ کے ارکان کو جس طرح کٹہرے میں کھڑا کیا جارہا ہے، اس کی مثال گزشتہ ادوار میں کہاں ملتی ہے؟ مومن نے شاید عمران خان ہی کے حوالے سے کہا تھا ؎ مجھ پہ ہنستے تو ہیں پر دیکھنا روئیں گے رقیب لب خنداں کی قسم! دیدۂ گریاں کی قسم!!

بشکریہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).