انڈہ… مرغی… ڈالر؟


پہلے زمانے میں لوگ قبیلوں میں رہتے تھے۔ ہر قبیلے کا ایک رہنما ہوتا تھا، جس کو سردار یا شیخ کہتے۔ ان قبیلوں میں ایک قبیلہ ”چلّی” کے نام سے مشہور تھا، جو خیالی پلاؤ پکانے میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ ”چلی” قبیلے کے لوگ اپنے سردار کو ”شیخ چلی” کہتے تھے۔ ”شیخ چلی” اپنے نام کی طرح بڑے بڑے خیالی منصوبے بناتا اور ناکام ہو جاتا۔ ایک دن شیخ چلی ایک شخص سے بڑے بڑے منصوبے بنانے پر بحث کر رہا تھا۔ اس شخص نے شیخ سے کہا: شیخ صاحب! آپ اتنے بڑے منصوبے کیوں بناتے ہیں؟ آپ نے ایک ہفتے بعد اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے۔ یہ سننا تھا کہ شیخ چلی نے قبر کھدوائی اور اس میں لیٹ گیا۔ چھ دن گزر گئے، کچھ نہ ہوا۔ ساتویں دن شیخ نے سوچا کہ یہ ہفتے کا آخری دن ہے، موت آئی کے آئی، لیکن اس کے کان میں آواز پڑی ”اگر کوئی اللہ کا نیک بندہ یہ انڈے میرے گھر تک پہنچا دے تو میں اسے ایک اشرفی دوں گا”۔ شیخ چلی اشرفی کا نام سن کر قبر سے باہر نکل آیا اور انڈے اٹھا لئے۔ مالک بولا: انڈے ٹوٹنے نہ پائیں ورنہ ایک پائی نہ دوں گا۔ شیخ چلی بڑے غرور سے بولا: شیخ چلی ہوں، کسی چھوٹے موٹے قبیلے کا سردار نہیں۔ پھر وہ انڈے لے کر چل پڑا۔ خیالوں کی دنیا کا وہ بادشاہ تو تھا ہی، لگا سوچنے۔ انڈوں کی مزدوری سے اشرفی ملے گی، اشرفی سے مرغی لونگا، وہ انڈے دے گی، انڈے بیچ کر بکری لونگا، وہ بچے دے گی، بکری کے بچے بیچ کر گائے لونگا، وہ دودھ دے گی، میرے بچے دودھ مانگیں گے تو کہوں گا… یہ لو! اتنا کہنا تھا کہ انڈے گر پڑے۔ مالک بولا: ہائے میرے انڈے؟ شیخ بولا: ہائے میرے بچے۔ حالانکہ شیخ کے بچے تھے ہی نہیں۔۔

خان صاحب نے کل اپنی حکومت کے سو دن پورے ہونے پر قوم کو انڈے اور مرغی کا درس دیا۔۔ لیکن افسوس ایک ہی دن بعد ڈالر نے 8 جمپ لگائی اور انڈہ خان صاحب کے ہاتھ سے گر کر خوابوں کی طرح ٹوٹ گیا۔۔ خان صاحب بعین ہی شیخ چلی کی جدید شکل ہیں۔۔ سوائے خواب دیکھنے اور بے مقصد منصوبے سوچنے کے ان کے پاس اور کوئی صلاحیت ہی نہیں ہے۔۔۔ بات شروع ہوئی پچاس روپے پیلی کاپٹر کے کرایہ سے۔۔ سو دن پورے ہونے پر بات رکی انڈوں اور مرغیوں کی افزائش پر۔۔ 101 ایک دن میں ابھی داخل ہی ہوئے تھے کہ ڈالر نے سارے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).