اردو ادب میں تہذیبی شناخت کا مسئلہ


گزشتہ دو ماہ سے زندگی اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ نہ تو کالم لکھ پایا اور نہ ہی کوئی کتاب پڑھ سکا۔ ڈیوٹی سے فراغت کے بعد اتنا تھک جاتا ہوں کہ سوائے کھانے اور سونے کے کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ مزید نومبر میں ہونے والی ادبی کانفرنسوں، مشاعروں اور بالخصوص دوستوں کی شادیوں نے اتنا مصروف رکھا کہ ایک دن لاہور تو اگلے دن گجرات، گوجرانوالہ اور منڈی بہاؤالدین۔ سو ایسے میں لکھنا تو درکنار پڑھنے کا وقت بھی نہ مل سکا۔ مزید کسر بیماریوں نے نکال دی۔ خود تو بیمار تھا ہی اوپر سے بڑی ہمشیرہ بھی ایک ماہ سے علیل ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی کام میں دل نہیں لگ سکا۔ کچھ دن قبل جب ڈائری دیکھنے کے بعد معلوم پڑا کہ ساہیوال کانفرنس کو صرف ایک ہفتہ باقی ہے تو تہذیب و ثقافت پر جو مواد وقتا فوقتا لکھا تھا اسے یکجا کرنے میں لگ گیا جس میں عزیز دوست آفتاب قربان کافی مددگار ثابت ہوا اورمیں وقت پر مقالہ مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

ساہیوال آرٹس کونسل کے زیرِاہتمام ہونے والی کانفرنس میں میرا موضوع ’’اردو ادب میں تہذیبی شناخت کا مسئلہ” تھا۔ پاکستان میں تہذیبی شناخت کی بحث تقسیم کے بعد حسن عسکری نے’’پاکستانی ادب” کی بحث چھیڑتے ہوئے شروع کی۔ عسکری کے بقول پاکستان ایک الگ ثقافتی اور تہذیبی شناخت رکھتا ہے سو اس کا ادب ہندوستانی ادب سے مختلف ہونا چاہیے۔ تقسیم کے بعد اس نوزائیدہ مملکت کو جہاں تنظیمی اور سیاسی مشکلات کا سامنا تھا وہاں فکری سطح پر تہذیب اور ثقافت کا مسئلہ بھی بہت اہم تھاکیونکہ پاکستان ایک کثیرالنسل، کثیر اللسانی اور کثیرالثقافتی خطہ ہے۔ اس کے مختلف علاقوں میں درجن سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں اور جہاں ہر علاقے کی زبان مختلف ہے وہاں ثقافت، روایات، لباس، عقائد و نظریات اور رسوم و رواج بھی مختلف ہیں سو ایسے میں ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا انتہائی مشکل تھا کہ ہماری تہذیبی شناخت کیا ہوگی اور ثقافتی سطح پر ہم کس کلچر کو پاکستان کے ساتھ جوڑیں گے۔

علاقائی تہذیبوں کے ساتھ ساتھ قومی تشخص کی تلاش، ثقافت کی تشکیل اور تہذیبی اساس کامسئلہ بھی انتہائی گھمبیر تھا۔ کسی نے اس کا ایک سرا بدھ مت اور ٹیکسلا کی تہذیب سے ملایا تو کسی نے اس کا دوسرا سرا وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب سے جا ملایا۔ کوئی طلوعِ اسلام کو اس کا نقطہ آغاز کہتا ہے تو کوئی تخلیق ِآدم تک پہنچ گیا۔ کسی نے آریائی کلچر کو اس کی شناخت بتایا تو کسی نے ہند اسلامی آمیزش کو پاکستان کی تہذیبی اور ثقافتی شناخت کہہ دیا۔ مسئلہ الجھتا رہی رہا مگر وقت کے ساتھ ساتھ سلیم احمد، وزیر آغا، ممتاز شیریں، صمد شاہین، شمیم احمد، ڈاکٹر جمیل جالبی، سید سبط حسن، ممتاز حسین اور ایم ڈی تاثیر جیسے قد آور ناقدین اور ادباء نے اس موضوع پر خامہ فرسائی اور یہ معاملہ کسی حد تک سلجھتا ہوا دکھائی دیا مگر اس حوالے سے آج تک کوئی اتفاق نہ ہو سکا۔

زیادہ تر دانشورانِ ثقافت نے اپنی تہذیبی اور ثقافتی پہچان کو مذہبی اور قومی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی مگر سائنس و ٹیکنالوجی کی تبدیلی کو سوائے سبطِ حسن کے کسی نے بھی محسوس نہ کیا ۔ سرحدوں کی بات ہو یا مذہب کی بات ہو، کلچرکی تعریفیں تبدیل ہوتی نظر آئیں۔ المختصر تہذیب آسمان سے نازل ہوتی ہے یا زمین سے جنم لیتی ہے یہ بحث ادب میں ابتدا سے ہے اور زمانہ موجود تک ہمارے اہلِ قلم دوسرے بہت سے نظریات کی طرح اس بات پر بھی متفق نہ ہو سکے ۔ تہذیب کو اگر ہم زمین میں ڈھونڈیں تو اس کی بنیادیں کہاں تک گہری ہو سکتی ہیں یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔

کیا تب سے جب سے انسانی شعور کی آنکھ وا ہوئی یعنی قریبا دس لاکھ سال پہلے یا ہم اس سے بھی پیچھے جائیں اور بگ بینگ کے سانچے میں چھپی ہوئی ہماری زمین کی قدرتی ساخت کو دیکھیں جو کہ قریباچودہ ارب سال پہلے واقع ہوا۔ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ تہذیب زمینی نہیں بلکہ آسمان سے قادرِ مطلق کے اتارے ہوئے احکام کا نتیجہ ہے تو پھر ہمیں تہذیب کی تاریخ کی کھوج چند ہزار سال پیچھے کی طرف لے جائے گی۔ جیسا کہ بہت سے مسیحی علماء کے نزدیک انسان کی ابتدا محض سات ہزار سال پہلے ہوئے۔

علمائے تاریخ ہمیں بتاتے ہیں کہ مذہب کی ابتدائی شکل محض گروہی رسم و رواج تھے جو انسان نے فطرت کی غیر معمولی قوت کو رام کرنے کے لیے ایجاد کیے۔ ہم اگر ان مباحث کی تفصیل میں نہ بھی جائیں تب بھی یہ بات واضح ہے کہ اگر قدرتی مناظر یعنی پہاڑ، دریا، جنگل، صحرا اور سمندر انسانی رویوں پر اثر ڈالتے ہیں اور موسمی تبدیلی جس کی بدولت انسان نے سفرِ ہجرت اختیار کیا اور سب سے اہم مسئلہ جو کی انسانی بقا کا مسئلہ ہے یعنی خوراک، یہ سب عناصرانسانی فکر پر اثر انداز ہوتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان نے اپنی تہذیب کو خود پیدا کیا اور بذریعہ ادب اس کا اظہار ہر زمانے میں کیا۔ اس کی ابتدائی شکلیں ہمیں رقص، مصوری، بت تراشی یا دیگر فنونِ لطیفہ میں نظرآتی ہے اور تحریر کی ایجاد کے بعد اس نے شاعری کا چوغہ پہنا اور جدید زمانے میں اس کا اظہار نظم و نثر کے علاوہ سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی ہو رہا ہے۔

لیکن اگر ہم تہذیب کو چند مہذب رویوں سے جوڑ دیں جن کا اظہار مذہب کرتا ہے تو شاید یہ بات آج کا جدید انسان ہضم نہ کر پائے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب پیدا ہوئے، وقت نے ان مذاہب کو انسانی مزاج کے مطابق ڈھال دیا۔ یعنی پھر وہ الہامی کی بجائے انسانی کاوش کا اظہار بن گئے اور ان میں پائی جانے والی اخلاقی کہانیاں محض فنونِ لطیفہ کی داستانیں شمار کی جانے لگیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ تہذیب نے مذہب کو جنم دیا تاکہ انسان اپنا ما بعد طبیعاتی کتھارسس کر سکے۔ اس طرح ادب میں تہذیب کا اظہار انسان کی شعوری کاوش نہیں بلکہ اس کے اجتماعی لاشعور میں نقش وہ راہیں ہیں جن کا اظہار آج انسان کی ذہنی ترقی کے ذریعے ہو رہا ہے اور انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں ایک عالمی تہذیب تشکیل دینے کے لیے محوِ سفر ہے۔

میں ڈاکٹر ریاض ہمدانی، محترمہ ثمن رائے، میجر اعظم شاہد اور محترمہ حنا جمشید کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھ ناچیز کو اس اہم ترین کانفرنس میں مدعو کیا اور مجھے اس بحث میں اپنی رائے دینے کا موقع دیا۔ یقینا عالمگیریت کے اس دور میں اپنی تہذیبی ورثے کو بچانا اشد ضروری ہے کیونکہ تہذہب و ثقافت سے ہی قومیں زندہ رہتی ہیں اور افسوس کہ آج کا انسان ماڈرن ازم کی دوڑ میں اپنی زبان اور ثقافت سمیت اپنی تمام مشرقی اقدار و روایات سے بھی دور ہو گیا جس کا نقصان آج یا کل بھگتنا ہی ہوگا۔ مجھے قوی یقین ہے کہ ساہیوال میں ہونے والی اس دوروزہ کانفرنس میں مختلف سیشنز میں اٹھائے جانے والے سوالات سے نئے مباحث جنم لیں گے جس کا کریڈٹ آرٹس کونسل آف ساہیوال کو جائے گا۔

(دو روزہ ساہیوال ادبی و ثقافتی کانفرنس میں پڑھے گئے مقالے کا ملخص)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).