منٹو ۔ نندیتا داس کی فلم کا ایک جائزہ


سمجھ نہیں آتی کہ لوگ منٹو پر فلمیں کیوں بناتے ہیں؟ اور بنانے والوں کی اکثریت منٹو کے فن کو سمجھنا تو دور کی بات، وہ نہ تو منٹو شخص کو جانتی ہے اور نہ اُس کی شخصیت کو۔ زیر نظر مضمون حال ہی میں نندیتا داس کی بنائی گئی فلم منٹو کے متعلق ہے، جس میں اس کی نجی زندگی اور فن دونوں کو ایک ساتھ فلمانے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک بات پہلے واضح کر دوں کہ یہ تاثر نہ لیا جائے کہ مجھے منٹو کی شخصیت اور علم و فن پر دسترس حاصل ہے اور میری رائے منٹو کے متعلق ایک سند کا درجہ رکھتی ہے، ایسا ہرگز نہیں۔ اس تبصرے کے لیے میں نے اپنے حافظے اور منٹو کے مدفن لاہور میں سیکھی اور بولی گئی اردو کا سہارا لیا ہے۔

فلم میں منٹو کا کردار نوازالدین صدیقی نے ادا کیا ہے اور بہت حد تک اپنے کردار پر پورا اترے ہیں، کاش کہ لہجہ تھوڑا سا عامیانہ ہوتا، نستعلیق اردو میں اگر پنجابی کی جھلک آتی تو شاید کردار مزید جاندار ہو سکتا تھا۔ حلیہ، گھنگھریالے بال اور فلم کے ابتدائی ہاف میں موٹی کالی عینک تک تو سب ٹھیک ٹھاک ہے لیکن جیسے ہی منہ کھولتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فلم بینوں سے لدھیانے میں پیدا ہونے والے، بمبئی میں کام کرنے والے اور لاہور کے رہائشی اور مدفون پنجابی منٹو کی بجائے 19 ویں صدی کے ابتدا میں دہلی، آگرہ یا لکھنو میں پیدا ہونے والا کوئی مصنف مخاطب ہے، اور اس کے مُنہ میں منٹو کی لکھی گئی مشہور لائینیں اور الفاظ زبردستی گھسائے گئے ہیں۔

لہجہ ایسا صاف کہ ایک پنجابی لکھنو میں 7 جنم بھی لے لے تو ایسا شین اور قاف ادا نہ کر سکے۔ ح کی آواز حلق کی ایسی گہرائی سے نکلتی ہے کہ جیسے مولوی صاحب عربی پڑھاتے وقت کہا کرتے تھے کہ بیٹا ح سے حلوہ، حلق سے نکالو اور بچے کی ماں کی آواز آتی تھی کہ مولوی صاحب بچے کے حلق سے نہ نکلوائیں میں آپ کو تازہ حلوہ بنا دیتی ہوں۔

منٹو کو جو تھوڑا بہت میں نے پڑھا ہے، اس کی زبان بہت آسان، رواں اور کاٹ دار ہے، اور یہی خوبیاں اسے باقیوں سے ممتاز کرتی ہیں، اگر اس کی تحریروں کو پڑھا جائے اور فلم دیکھی جائے تو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ بولتے وقت وہ اس قدر مشقت سے اپنے نحیف و لاغر جسم سے جان دار اور تھکا دینے والے الفاظ کیسے ادا کرتا ہو گا، ادائیگی بناوٹی، جیسے کہ زبردستی اردو بلوائی جا رہی ہو، پہلے 25 منٹ تک فلم برداشت کرنا خاصہ مشکل کام ہے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ شروع میں اس قدر زور زبردستی سے فقرات گھسائے گئے ہیں کہ دم گھٹتا ہے، مثال کہ طور پر ایک سین میں منٹو اور صفیہ، منٹو کے والدین کی قبر پر فاتحہ کرتے ہیں اور پھر منٹو وہ قول دہراتا ہے جو اس کے کتبے کی زینت بنا، کیا بہتر ہوتا کہ یہ قول فلم کے اخیر میں لکھ کر پیش کر دیا جاتا اور پس منظر سے پڑھ دیا جاتا۔

اس سے پہلے بھی منٹو پر چند فلمیں بن چکی ہیں، جن میں سے ایک فلم عرفان کھوسٹ صاحب کے صاحبزادے سرمد سلطان نے بھی بنائی، جناب اس فلم کی تو بات ہی کچھ اور ہے، یعنی کہ وہ کام جو منٹو نے تمام عمر نہ کیا کہ اپنی تحریروں کا دفاع کرتا اور معذرت خوانہ رویہ اپناتا، فلم بنانے والے بھائی نے بعد از مرگ یہ ذمہ داری اپنے سر لی اور اسے بخوبی نبھایا، اگر منٹو یہ فلم دیکھ لیتا تو شاید پیدا ہونے سے معذرت کر لیتا اور پیدا ہو بھی جاتا تو لکھنے کی بجائے کوئی اور کام دھندا کر لیتا۔

منٹو نے جیتے جی مقدمے بھگتے لیکن کبھی معذرت خوانہ رویہ اختیار نہ کیا، البتہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایسا کچھ اپنی وصیت میں لکھ گئے ہوں جو ان کی نواسی عائشہ جلال یا نواسے عابد حسن منٹو سے ہوتی ہوئی فلم کار کے ہاتھ لگ گئی ہو اور اس نے تاریخ کی درستی کے لیے یہ کام اپنے ذمے لے لیا ہو، واللہ اعلم بالصواب۔

میرے نزدیک منٹو کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی نہیں ہو سکتی کہ اس کا دفاع کیا جائے، سچ لکھ نہیں سکتے، دکھا نہیں سکتے تو بھائی مت بناؤ منٹو پر فلمیں، اور بہت سے شعرا اور ادیب ہیں جو آپ کے معیار پر پورا اترتے ہیں، ان پر اپنے فن کی آزمائش کیجیے، بخدا کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کھوسٹ کی منٹو فلم کا سعادت حسن منٹو نامی ادیب سے سچ کا وہی رشتہ ہے جو مطالعہ پاکستان کی درسی کتب کا تاریخ پاکستان سے۔

زیر نظر فلم میں ایک دو سین میں خواہ مخواہ کی جذباتیت بھی ڈالی گئی ہے، منٹو تو جذباتی نہیں ہے، وہ سیدھی اور کھری بات کہتا ہے، وہ جذبات کو بالائے طاق رکھ کر اپنا نشتر چلاتا ہے، نہ اسے زخم سے ہمدردی ہے نہ زخمی سے، وہ تو اپنا کام کرتا ہے اور یہ جا اور وہ جا۔

پھر ایک جگہ ”کھول دو“ ایسے ڈالا گیا ہے کہ جیسے کوئی قیمے والا نان نہاری میں ڈبو کر کیچپ کے ساتھ کھا رہا ہو۔ بھائی ایسا کرنا تھا تو اس افسانے پر ایک علیحدہ سے فلم بنا دیتے، کیونکہ آپ نہ صرف یہ کہ منٹو کی زندگی کا احاطہ نہیں کر پائے بلکہ اس کے فن سے بھی نا انصافی کے مرتکب ہوئے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی لائن ادھر سے کوئی ادھر سے، جیسے ہر مشہور لائن کو فلم میں ڈالنا مذہبی اور فلمی فریضہ سمجھ لیا گیا ہو۔ فلم میں کئی بار تانگے نظر آتے ہیں، مجھے یہی لگا کہ ابھی ”نیا قانون“ آیا ہی آیا لیکن شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔

ایک تکنیکی یا تاریخی غلطی یہ ہے کہ، منٹو ایک ادبی جلسے سے فارغ ہو کر گھر واپس جاتا ہے، وہاں پر بورڈ پر سن 1948 صاف درج دکھایا گیا ہے اور گھر پہنچتے ہی پولیس اس کا استقبال کرتی ہے، کیونکہ ”ٹھنڈا گوشت“ لکھنے کے جرم میں اس پر مقدمہ درج ہو چکا ہوتا ہے، ”ٹھنڈا گوشت“ شاید 1950 میں لکھا گیا تھا، اس غلطی کو نظر انداز کر دیا جائے تو افسانے کو چند ہی لمحات میں بہت ہی شاندار اور اچھے طریقے سے فلمایا گیا ہے، جس پر دونوں فنکار اور نندیتا داس داد کے مستحق ہیں۔ البتہ ٹھنڈا گوشت کی عدالتی کارروائی کے دوران جس لہجے سے فیض صاحب گفتگو کرتے ہیں وہ تو بالکل بھی ان کا نہیں ہے، وہ تو اپنے ہی اشعار اس قدر سستی اور کاہلی سے سناتے تھے جیسے سننے والوں کو قرض دے رہے ہوں، لیکن فلم میں وہ انتہائی تیز گفتگو کرتے دکھائی دیے ہیں۔

اس کے بعد کی فلم کی روانی بہت بہتر ہے، وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ فلم کی رفتار قدرے سست ہو جاتی ہے، اور منٹو کی شخصیت، نجی زندگی اور اس کے فن کو کھل کر سامنے آنے کا موقع دیا جاتا ہے، مزید یہ کہ نواز الدین کی اداکاری میں جان اس وقت آتی ہے جب منٹو کی جان پر بنی ہوتی ہے بلکہ جان جا رہی ہوتی ہے۔

فلم کے اخیر میں ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ کو بہت خوبصورتی سے فلمایا گیا ہے، کچھ ڈائیلاگ شاید درست نہیں یا ان کی ادائیگی ٹھیک نہیں، اور سکھ کا اردو لہجہ بھی ویسا نہیں جیسا کہ ہونا چاہییے۔
اگر پہلے ہاف میں فلم کی رفتار قدرے سست کر لی جاتی اور دورانیہ 20 سے 25 بڑھا دیا جاتا تو بہت بہتر فلم بن سکتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).