الطاف فاطمہ : پاکستان کی نمائندہ ادیب


الطاف فاطمہ پاکستان کی نامور افسانہ نگار، ناول نگار، ترجمہ نگار، اور ادیب تھیں۔ وہ 1929ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئیں۔ اور 29نومبر 2018ء کو لاہور میں انتقال ہوا اور لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب میں تدفین ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور آگئیں جہاں انھوں نے لیڈی میکلیگن کالج سے بی ایڈ اور جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسلامیہ کالج برائے خواتین کوپر روڈ میں اردو کی استاد مقرر ہوئیں ۔ اور اسی کالج سے شعبہ اردو کی سربراہ کی حیثیت سے ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے دوران جب الطاف فاطمہ کی ایک آنکھ کی روشنی جاتی رہی تو ان کی والدہ نے ان کے مطالعہ کرنے پر پابندی عائد کردی جس کے نتیجے میں انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے لکھنا شروع کیا ۔ ان کی تحریروں کی سب سے زیادہ حوصلہ افزائی ان کی والدہ نے کی ۔ ان کا پہلا افسانہ 1962ء میں مؤقر ادبی جریدے ”ادب لطیف ”میں شائع ہوا۔ الطاف فاطمہ کے یہ چار ناول منظر عام پر آئے۔
1.خواب گر
2۔ چلتا مسافر
3۔ دستک نہ دو
4۔ نشان محفل
. الطاف فاطمہ کے افسانوں کے مجموعے ان ناموں سے منظر عام پر آئے۔
1۔ تار عنکبوت
2۔ جب دیواریں گرتی ہیں
3۔ وہ جسے چاہا
4۔ دید وادید
الطاف فاطمہ اچھی ترجمہ نگار بھی تھیں اور ترجمے کے حوالے سے ان کی مندرجہ ذیل کتب منظر عام پر آئیں۔
1۔ سچ کہانیاں
2. بڑے آدمی اور ان کے نظریات
3. نغمے کا قتل
4. جاپانی افسانہ نگارخواتین
الطاف فاطمہ نے گوشہ نشینی کی زندگی گزاری۔ انھیں آگے بڑھ کر تصویریں اتروانے ، ادبی انجمنوں اور محفلوں میں آگے آگے رہنے کا شوق نہیں تھا۔ بچپن سے ہی کتب بینی کی عادت تھی۔ مشہور افسانہ نگار رفیق حسین ان کے سگے ماموں تھے اور حمیدہ اختر حسین رائے پوری ان کی خالہ زاد بہن تھیں۔ الطاف فاطمہ کا ناول”دستک نہ دو” بے حد مشہور ہوا۔ اس ناول کو ڈرامائی شکل میں پاکستان ٹیلی وژن نے بھی نشر کیا نیز اس ناول کا انگریزی ترجمہ رخسانہ احمد نے کیا۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر الطاف فاطمہ کے متعدد ڈرامے نشر ہوئے۔

الطاف فاطمہ نے شادی نہیں کی تھی بلکہ اپنی زندگی اپنی مرحومہ بہن کے بچوں کے لیے وقف کردی تھی۔ ان کا تخلیقی سفر نوے برس کی عمر میں بھی جاری رہا ۔ ترجمہ اور تخلیقی کاموں کے ساتھ ساتھ مطالعہ بھی ان کے مشاغل میں شامل تھا۔ انھیں ادبی اداروں اور انجمنوں کی سرپرستی حاصل نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ سرکاری وفد میں شامل ادیبوں میں کبھی ان کا نام شامل نہیں ہوسکا۔ میڈیا نے الطاف فاطمہ کو کبھی لائق تحسین نہیں جانا۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی شہرت اور عزت کے حوالے سے ہمیشہ ناآسودگی کا شکار رہیں۔ الطاف فاطمہ کا کہنا تھا کہ ”اچھا لکھنے اور زیادہ لکھنے میں فرق ہے”۔ وہ جب تک کسی موضوع میں ڈوب نہیں جاتی تھیں لکھ نہیں پاتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مختصر افسانہ لکھنا اور اس میں اپنی تمام فکر کو سمونا بہت مشکل کام ہے۔ انھیں اپنے ہم عصر ادیبوں میں انتظار حسین کا ناول ” آگے سمندر ہے” بہت پسند تھا۔ زاہدہ حنا نے2016ء میں ان کے حوالے سے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ”الطاف فاطمہ اپنی لکھت کی گٹھری کاندھے پر دھرے ناقدری کا کالا پانی کاٹ رہی ہیں۔ اردو ناول و افسانے کے پارکھ ان سے سر سری گزرے تو یہ الطاف فاطمہ کا گھاٹا نہیں، اردو ادب کا زیاں ہے۔” الطاف فاطمہ کے نمائندہ افسانوں میں ، سون گڑیا، تار عنکبوت، باز گشت ، ننگی مرغیاں وغیرہ شامل ہیں۔ الطاف فاطمہ کا ناول”چلتا مسافر” سقوط ڈھاکہ کے پس منظر پر لکھا گیا ہے یہ ناول تقریباَ دس سال کے عرصے میں مکمل ہوا۔ جامعہ کراچی میں ڈاکٹر تنظیم الفردوس کی زیر نگرانی ایم اے کا ایک مقالہ چند سال قبل ”الطاف فاطمہ ” کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ الطاف فاطمہ کے فن و شخصیت پر مزید کام کیا جائے گا اور ان کی تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتوں کو تحقیقی اور تنقیدی نقطۂ نظر سے جانچا جا ئے گا تاکہ نواردان ادب اردو کی اس ممتاز ادیبہ کی تحریروں سے صحیح طریقے سے وافف ہوسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).