کام کوئی بھی چھوٹا نہیں ہوتا


وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کے بعد سوشل میڈیا پر بڑے دلچسپ تبصرے دیکھنے کو ملے۔ مرغی انڈوں والی تقریر پر یہ تبصرے اور تجزیے ہنسی مذاق کی حد تو ٹھیک ہے، لیکن اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کا یہ پروگرام شہروں میں ذندگی گزارنے والوں کے لئے کتنا فائدہ مند ہوگا اس کا ٹھیک اندازہ نہیں، لیکن یہ پروگرام دیہی علاقوں کے لئے انتہائی سود مند ثابت ہوگا۔

دہہات کے طور پر ہم گلگت بلتستان کو لیتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں ہر ایک شخص کے پاس اتنی زمین موجود ہے جو بیک وقت دو سو مرغیاں باآسانی پال سکتا ہے۔ اگر ایک شخص دو سو مرغیاں پال کر اچھی پرورش کریں تو وہ روزانہ ایک سو انڈے مارکیٹ میں فروخت کرسکتا ہے۔ اگر ایک شخص ایک سو انڈے روز دس روپے کے حساب سے فروخت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ شخص روزانہ ایک ہزار روپے، مہینے میں تیس ہزار روپے اور سال بھر میں کم و بیش تین سے چار لاکھ کما سکتا ہے۔ جبکہ مرغیوں کو ہر تین ماہ بعد چھ ہزار روپے کی ویکسین کرنا پڑتا ہے۔ اور چند ہزار فیڈ پر خرچ ہونگے۔

اس کے علاوہ بہت ساری روزمرہ استعمال کی چیزوں کو اپنے گھروں میں پیدا کر کے اپنی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹی مارکیٹ میں کاروبار بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک زمین دار اپنے ایک کھیت میں مکئی کاشت کرنے کے بجائے ٹماٹر، پیاز،الو،شلجم،گاجر اور دیگر سبزیاں اگائے تو سال میں لاکھوں کما سکتا ہے۔ جبکہ مکئی ایک ہزار روپے من بگتا ہے اور یہ پورے سال میں دس بیس من مکئی ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ گلگت بلتستان کی زمین دور قدیم سے کاشت ہوتی رہی ہے، بڑی ہی زرخیز زمین ہے یہاں پر سیم اور تھور کا بھی کوئی مسئلہ نہیں یہاں کی سبزیاں، اور پھل پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں بہت ہی لذیذ ہوتی ہیں اور پیداوار بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔

گاہکوچ بازار کی چھوٹی سی مارکیٹ میں سروے کرنے سے معلوم ہوا کہ سوات اور دیگر علاقوں سے ایک کروڈ روپوں کی سبزی گاہکوچ لایا جاتا ہے۔ اگر غذر کے ذمین دار گاہکوچ کی چھوٹی سی مارکیٹ کے لئے سبزی پوری کریں تو ایک کروڑ روپیہ ضلع کے اندر سرکولیشن میں رہے گا۔ اس سے ایک تو عوام کو تازہ سبزیاں مناسب قیمت پر دستیاب ہوں گی اور غربت اور بے روزگاری میں بھی کمی آئے گی۔ آپ اندازہ لگائے ایک گاہکوچ کی مارکیٹ میں ایک مہینے میں ایک کروڑ کی سبزی بکتی تو پورے گلگت بلتستان سے کتنا پیسہ چلا جاتا ہے۔

ڈرائی فروٹ گلگت بلتستان کا بہترین پروڈکٹ ہے لیکن بد قسمتی سے ہم یہ مٹی کے دام ایک ساتھ فروخت کرتے ہیں۔ پاکستان کی بڑی مارکیٹوں میں ہماری رسائی نہ ہونے کے باعث جس سال پیداوار زیادہ ہوتی ہے تو خریدار ہمیں سستے دام فروخت کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے لوگ اگر اپنے لوکل پروڈکشن پر توجہ دے تو یہاں کوئی بے روزگار نہیں رہے گا۔ کسی کو گریڈ ون کی نوکری کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

وزیر اعظم کی تقریر پر ان لوگوں نے بھی تنقید کی جو چند ہزار کی نوکری کرتے ہیں۔ کام کوئی چھوٹا نہیں ہوتا کسی کام میں نقصان اور ناکامی نہیں بس کام کرنے کی نیت ہو، اور محنت پر پختہ یقین ہو۔ ہم اتنے آرام طلب ہوچکے ہیں کہ بغیر محنت کے پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔ ہم بیس ہزار کی گریڈ ون والی نوکری کو ترجیح دیں گے لیکن محنت نہیں کریں گے۔

ہم سرکاری نوکری کی تلاش بھی اس لئے کرتے ہیں کہ بغیر محنت کے تنخواہ مل جاتی ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں محنت پر یقین رکھ کر کاروبار کی طرف آنا ہوگا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ لوگ محنت نہیں کرتے لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ریڑھی پر مونگ پھلی بھیچنے والا شخص ایک مہینے میں چالیس سے پنتالیس ہزار کماتا ہے وہ بھی گاہکوچ جیسے چھوٹے شہر میں۔

آپ کبھی ریڑھی سبزی والے سے اس کے کاروبار کے حوالے سے بات چیت کرکے دیکھو۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم معاشرے کے غریب اور چھوٹے طبقے سے بات کرنا پسند ہی نہیں کرتے۔ لیکن میری نظر میں یہ چائے والے،سبزی والے،پھل والے،اور رہڑھی والے عظیم لوگ ہیں جو محنت پر یقین رکھتے ہیں، اور مشقت سے پیسہ کماتے ہیں۔ کام کوئی بھی چھوٹا نہیں لیکن محنت شرط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).